ایک انجینئر صاحب اور اس کے بیٹے کا واقعہ | شکر و امتنان اور صبر و توکل سے متعلق واقعات

شکر و امتنان اور صبر و توکل سے متعلق واقعات

ایک انجینئر صاحب اور اس کے بیٹے کا واقعہ

ایک انجینئر اپنے کمرے میں بیٹھا کوئی ڈرائنگ بنارہا تھا، اس کا اکلوتا بیٹا بھی گھر میں تھا، اس کی بیوی کسی کام کے سلسلے میں کہیں گئی ہوئی تھی؛ اس لیے بچہ بھی اس کو سنبھالنا تھا۔ اب بچہ بھی اسی کمرے میں تھا۔ کبھی وہ اس کتاب کو چھیڑتا کبھی وہ اس کتاب کو…..۔ ہم نے اکثر و بیشتر دیکھا ہے کہ انجینئرز اور ڈاکٹرز کے کمروں کی حالت عجیب ہوتی ہے۔ کہیں کتابیں پڑی ہوتی ہیں، کہیں کاغذ بکھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور ان بے چاروں کے پاس ان کو ترتیب سے اور صفرائی سے رکھنے کی فرصت ہی نہیں ہوتی، ان کی گاڑیاں بھی قابل دید ہوتی ہیں اور ان کے کمرے بھی قابل دید ہوتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی صفائی رکھنے والا ہو تو الگ بات ہے؛ ورنہ اکثر و بیشتر ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے، اپنی اپنی طبیعت ہوتی ہے۔

بہرحال انجینئر کے ہر طرف کاغذ بکھرے ہوئے تھے ادھر بھی کاغذ ادھر بھی کاغذ۔ چنانچہ جب بچہ کسی کاغذکو ہاتھ لگاتا تو وہ کہتا: بیٹا! یہ ڈرائنگ ہے، اس کو ہاتھ نہ لگاؤ، پھر وہ دوسرے کاغذ کو ہاتھ لگاتا تو وہ کہتا: بیٹا! اسے ہاتھ نہ لگاؤ، یہ میرا قیمتی کاغذ ہے۔ اب وہ کام کر ہی نہیں پارہا تھا، بچہ خوب ڈسٹرب کر رہا تھا ۔ اس کا یہ بھی جی نہیں چاہ رہا تھا کہ میں اپنے بچے کو ڈانٹوں یا کمرے سے نکالوں، آخر اس کا بیٹا تھا، دل کا ٹکڑا تھا۔

اس کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ میں اس بچے کو کہیں مصروف کرتا ہوں۔ چنانچہ اس کے سامنے ایک اخبار پڑا ہوا تھا اور اس کے اوپر پوری دنیا کو نقشہ بنا ہوا تھا۔ اس نے کیا کیا؟ اس نے قینچی لی اور اس دنیا کے نقشے کے آٹھ دس ٹکڑے کردیے اور بچے سے کہا: بیٹا! میں تمہیں ٹیپ بھی دیتا ہوں اور میں تمہیں یہ چند کاغذ دیتا ہوں۔ اگر تم ان کو ترتیب سے جوڑ کر لاؤگے تو م یں تمہاری پسند کی ’’ونیلا آئس کریم‘‘ تمہیں لے کر دوں گا۔ وہ بچہ تھا اس لیے ونیلا آئس کریم کا نام سن کر خوش ہوگیا۔ چنانچہ وہ ٹیپ اور کاغذ کے ٹکڑے لے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ اب انجینئر صاحب نے سکھ کا سانس لیا کہ اب یہ دو گھنٹے وہیں مصروف رہے گا اور میں اپنا کام نکال لوں گا۔

ابھی پانچ منٹ نہیں گزرے تھے کہ بچہ واپس آیا اور کہنے لگا: ابو جی! میں نے اپنا کام کر لیا ہے۔ آپ دیکھیں۔ جب اس نے وہ کاغذ لے کر اپنے سامنے رکھا تو بڑا حیران ہوا کہ سمندر سے سمندر ٹھیک ملے ہوئے ہیں۔ پہاڑوں سے پہاڑ ٹھیک ملے ہوئے ہیں۔ ملکوں کی حدود بالکل اپنی جگہ پر تھیںاور اس بچے نے بالکل ٹھیک سب چیزوں کو جوڑدیا، وہ حیران ہوگیا کہ اگر میں انجینئر بھی جوڑنے بیٹھتا تو مجھے بھی اتنا وقت لگتا اور بچے نے کمال کردیا کہ پانچ منٹوں میں جوڑکر لے آیا۔ چنانچہ وہ حیران ہوکر بچے سے پوچھنے لگا: بیٹا! تم اتنا جلدی یہ نقشہ کیسے جوڑ لیا؟ تو بچے نے مسکرا کر اس کاغذ کو الٹ دیا۔ جب اس نے الٹ کر رکھا تو اس نے دیکھا کہ دوسری طرف ایک عورت کی بڑی تصویر بنی ہوئی تھی۔ بچے نے وہ تصویر جوڑی اور دوسری طرف دنیا کا نقشہ خود بخود جڑ گیا۔

تو بھئی! ہو سکتا ہے کہ یہ مسئلہ ہماری نظر میں دنیا کا نقشہ جوڑنے کی طرح مصیبت ہو اور ہو سکتا ہے کہ دوسرے بندے کے سامنے اس تصویر کو جوڑنے کی طرح بہت آسان ہو۔ اس لیے غصے میں آنے اور پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ جو بندہ اس حقیقت کو سمجھ لیتا ہے، اس کی زندگی کے اندر خوشیاں آجاتی ہیں۔ (ماخوذ از: اہل دل کے تڑپا دینے والے واقعات: جلد دوم، صفحہ ۴۶۷)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے