حالات حاٖضرہ پر مضمون
نسل نو کے ایمان و عقیدے کی فکر کیجیے
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ
جس طرح اپنے ایمان اور ارکان اسلام کی حفاظت ہمارا فرض ہے اور اس کے لئے ہر ضروری انتظام ہمارا دینی فریضہ ہے اسی طرح مسلمانوں کی نئی نسل کے لئے دینی تعلیم کا انتظام اور مشرکانہ تعلیم کے اثرات سے بچانے کی جد و جہد وقت کا فریضہ اور جہاد اور افضل و مقدس ترین عبادت ہے۔ اس لئے کہ اگر کسی درخت کو درخت کے دشمنوں سے بچانے اور اس کو سینچنے اور پانی دینے سے غفلت برتی گئی تو وہ درخت زندہ اور سرسبز نہیں رہ سکتا اور اس سے پھل پھول کی توقع خام خیالی ہے۔
ہندوستان میں اسلام کا درخت اسی طرح سلامت اور سرسبز اور بار آور رہ سکتا ہے کہ اس کی حصار بندی اور آبیاری کی کوشش کی جائے۔ ہماری آئندہ نسلیں جب ہی مسلمان رہ سکتی ہیں جب ان کی اپنی تعلیم وتربیت کا انتظام کیا جائے۔
اسلام کسی نسل و نسب اورقوت کا نام نہیں جس کے لئے کسی فیصلہ اور ارادہ یا عقل و شعور کی ضرورت نہیں۔ ہر برہمن کا لڑکا برہمن ہے اور ہر شیخ و سید کا لڑکا شیخ زادہ وسید زادہ ہے اس کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اسلام کا انحصاراپنے ذاتی فیصلہ و ارادہ اور عقل و شعور پر ہے ایسا دین حوادث و انقلابات کے اس دور میں بغیر صحیح تعلیم اورمستحکم تر بیت کے باقی نہیں رہ سکتا۔
اللہ تعالی نے مسلمانوں سے اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسلام و ایمان پر قائم رہنے کی کوشش کریں اسی پر زندگی گذاریں اور جب موت آئے تو اسی دین اور ملت پر آئے: فلاتموتن إلا وأنتم مسلمون ( آل عمران:11) اور ہرگز نہ مرنا تم مگر مسلمان ۔
(تکبیر مسلسل: ص 173)