۲۹ مئی ۱۴۵۳ء یوم فتح قسطنطنیہ – ترکی والوں کے لیے آج دہری خوشی کا دن تھا

۲۹ مئی ۱۴۵۳ء یوم فتح قسطنطنیہ

ترکی والوں کے لیے آج دہری خوشی کا دن تھا

جب 21 سالہ نوجوان عثمانی سلطان محمد خان اول نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بشارت کو پورا کیا اور 29 مئی 1453ء کے دن ناقابلِ تسخیر شہر قسطنطنیہ کو فتح کیا جو اپنے دور کی ایک سپر پاور تھا، اور اسے استنبول کا نام دیا ………. آج ترکی والے دو جشن منا رہے ہیں ایک طیب ایردوان کی جیت کا اور دوسرا قسطنطنیہ کی فتح کا.

وہ ایک شاہزادہ تھا.
ایک ایسی مملکت کا کہ جہاں نسلوں سے اسکا خاندان حکومت کرتا اَیا تھا۔
مسلمان لوگ تھے، شاہی دستور تھا کہ شاہزادے بچپن میں ہی قراَن مجید حفظ کیا کرتے تھے، مگر اس لڑکے میں کچھ عجیب سی بات تھی، ہزار جتن کیے گیے مگر یہ کسی کے ہاتھ نہ آتا تھا، پڑھائی سے دور بھاگتا تھا.
بادشاہ اَج کے زمانہ کا ہوتا تو اسے مال بٹورنے اور اپنی عیاشیوں ہی سے فرصت کہاں ہوتی؟

زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا تو کسی فرنگی نظم کے مقامی یا ولایتی ادارے بھیج دیا ہوتا تاکہ دشمنوں کے ہاتھوں ایسی تربیت لیکر اَے کہ غیر مقامی دشمنوں کی ضرورت ہی نا بچے!

بادشاہ کو اسی فکر نے زیادہ پریشان کیا تو اس نے وقت کے ایک جید عالم کو اس کے لیے بطور اتالیق چنا۔

[ہمارے دیس کے حکمرانوں کو مشیر بھی حسین حقانی جیسے ملتے ہیں]

وہ عالم بخاری شریف کی شرح لکھنے والے نہایت جید عالم تھے، بادشاہ نے جانا کہ شہزادہ کہیں صاحبزادگی کے زعم میں ان کے حق میں بے ادبی نہ کر بیٹھے، تو خود اپنے ہاتھ سے ایک سوٹا ان کے حوالہ کیا کہ اس کی مدد سے اس بگڑتے لڑکے کو سدھاریے۔

مولانا جب شاہزادے کے پاس پہونچے تو حسبِ توقع شہزادے نے استہزایہ انداز میں ان کا استقبال کیا کہ چلو! بڑے میاں پڑھانے آئے ہیں، کچھ شغل رہے گا!
مولانا نے آتے پہی بید نکال کر دکھلائی کہ تیرے باپ نے یہ دے کر بھیجا ہے! اب تو پڑھے گا اور ضرور پڑھے گا!
کچھ اور بزرگوں کی بھی توجہات تھیں، کچھ اس پانچویں امام کا کرشمہ تھا کہ بہت کم عرصہ میں شہزادہ حافظ ہوا۔

[یہ حفظ اعلی تعلیم کی اولین سیڑھی ہوتی تھی ہمارے سنہرے دور میں………. اب بابا بلیک شیپ!]

بس پھر وہ رکا نہیں بلکہ پڑھتا ہی گیا اور چڑھتا ہی گیا، دین سیکھا، فنون حرب میں طاق ہوا، جہان بانی سیکھی اور ترقی کے زینے بے تکان چڑھتا ہی گیا۔
فی زمانہ تو ہمارے اشرافیہ کی اولاد کا مطمح نظر انگلینڈ اور کینیڈا کی دوٹکے کی؛ بحیثیث شہری درجہ دویم نیشنیلٹی پالینا ہی بچا ہے۔
مگر وہ وقت ہمارا تھا !
نسل در نسل اور سینہ بہ سینہ ایک خواب ایک چیلنج نگاہوں میں بسا اَتا تھا اور وہ تھا نصاری کے مرکز قسطنطینیہ کو فتح کرنا۔
صحابہ سے لیکر بنو امیہ اور بنو عباس سب کوششیں کرچکے تھے مگر اس فتح کا سہرا جس کے سر سجنا تھا وہ تو یہی کھلنڈرا شاہزادہ تھا۔

یہ جوان ہوا تو اس نے آج کل کے جذباتی جوانوں کی مانند بندوق اٹھاکر مغرب فتح کرنے کا رستہ نہین چنا، بلکہ برسہا برس تیاری کی، وقت کی بہترین سپاہ جمع کی تیار کی اور جتنا بن پڑا جدید تر ہتھیار بنوائے، بحری بیڑے کو پختہ کیا ………. اس نے کیا کچھ کیا اس کی تفصیلات الگ سے ایک بحث ہے۔

پھر شمسی حساب سے اَج 29 مئی ہی کا دن تھا کہ جب صدیوں سے ناقابل تسخیر سمجھے جانے شہر میں اسلام کا علم بلند ہوا۔
اور ہاں………. یہ کوئ انفرادی کارنامہ نہ تھا اس میں ہزاروں سپاہیوں کی محنت اور رات رات بھر روکر کی جانے والی دعاوں کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔
فتح صرف اسلحہ جمع کرلینے سے نہ ملی تھی، اس میں وہ وقت بھی اَیا تھا کہ جب فدائی جھتہ فصیل پہ چڑھا اور کفر کے جھنڈے کو اتار کر اسلام کا علم بلند کیا اور پھر وہیں اس علم کی سربلندی کی خاطر سینے پہ تیر کھاتے جنت کی راہ لی۔
اس شہزادے کا نام تھا سلطان محمد فاتح۔
اللہ پاک سلطان محمد فاتح کی قبر کو نور سے بھر دے۔
اور ہماری ملت کو دوبارہ اصول صحیحہ کی پاسداری کرتے ہوئے درخشاں دور کی جانب لوٹا دے۔
وماذالک علی اللہ بعزیز

مولانا صہیب نسیم

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے