تعزیت نامہ بر وفات حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تعزیت نامہ بر وفات حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ

ریاست ٹونک اور حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ

ٹونک اور اہل ٹونک سے آپ کا اور آپ کے خاندان سے تعلق کے گواہ یہاں کے در و دیوار ہیں۔ تاریخی کتابیں ہیں، مسجد قافلہ، محلہ قافلہ، کلو میاں کی حویلی سادات قافلہ کے مکانات ہیں۔

مرشد الامت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی صاحب ندوی کا ٹونک سے بہت دیرینہ اور بڑا گہرا تعلق ہے۔ حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ بانی ریاست ٹونک کے ساتھ تقریباً سات سالوں تک رہے۔ تلوار بازی، نیزے بازی وغیرہ کی تربیت نواب صاحب کی فوج میں رہ کر حاصل کی۔ دوسرے نواب سراج الدولہ خان بہادر جنگ سید احمد شہیدؒ سے بیعت تھے۔ آپ کا سید صاحب سے محبت و شفقت کا اتنا معاملہ تھا کہ آپ نے ایک کاتب سید صاحب کے ہمراہ کردیا جو آپ کے واقعات کو قلمبند کرتا رہتا۔ بعد میں وقائع احمدی کے نام سے فارسی میں اور پھر اردو میں مجلس نشریات اسلامی ندوۃ العلماء سے شائع ہوا۔

مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی کے والد محترم جناب سید عبد الحیٔ حسنی صاحب نزہۃ الخواطر میں جہاں علامہ حیدر حسن خان صاحب ٹونکی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کیا ہے وہاں آپ نے تحریر فرمایا: ’’بیننا و بینه ودٌّ قدیم‘‘

علامہ حیدر حسن خان صاحب ندوۃ العلماء میں شیخ الحدیث بھی تھے اور بحیثیت مہتمم کے بھی آپ نے خدمت انجام دی ہے۔ مفکر اسلامؒ کے خاص الخاص اساتذہ میں آپ کا شمار ہوا ہے۔ یہی تعلق و نسبت حضرت مولانا محمد رابع حسنی صاحب ندوی نے ہمیشہ اہالیان ٹونک سے رکھی۔حضرت مفکر اسلام ؒ جب ٹونک تشریف لاتے تو یہ شعر بار بار پڑھتے، یہ شعر ورد زبان ہوتا:

چمن کے تخت پر جس دم شہ گل کا تجمل تھا
ہزاروں بلبلیں تھیں باغ میں اک شور تھا غل تھا
کھلی جب آنکھ نرگس کی نہ تھا کچھ خار گل باقی
بتاتا باغباں رو رو یہاں غنچہ یہاں گل تھا

حضرت مولانا رابع حسنی صاحب رحمہ اللہ کا یہ ایک تاریخی سفر ۲۰۱۵؁ء میں ہوا تھا۔ اس سفر میں شہر کی کئی اہم شخصیات نے آپ سے بیعت کی اور آپ نے خاص وظائف بتائے۔ قافلہ کے پروگرام سے واپسی پر حضرت آرام کے لیے چلے گئے۔ اور برابر میں برادرم جناب عارف خانصاحب کے گھر پر چہار بیت اور نعت خوانی کی خوبصورت مجلس سجی جس میں دیر رات تک حضرت مولانا سید بلال عبد الحی حسنی صاحب تشریف فرما رہے۔ سید مبارک شاہ صاحب کی خوبصورت نعتوں اور غزلوں نے مولانا کو بہت متأثر کیا۔ رات قیام کے بعد دوسرے دن حضرت کا سفر تھا۔ ٹونک سے واپسی پر جے پور جاتے وقت بناس ندی کے کنارے جامعہ سید احمد شہید ٹونک کے باہر روڈ پر حضرت کچھ دیر رکے رہے اسی دوران جب جانے لگے تو مجھے ایک سو روپے کے دس نوٹ کل ایک ہزار روپے نکال کر دیے اور فرمایا: عامر! یہ رکھ لو کام آئیں گے۔ وہ نوٹ آج تک میرے پاس محفوظ ہیں۔ اور اس پر اس سفر کا نوٹ بھی ڈالا ہوا ہے۔

رمضان سے چند روز قبل میرے بیٹے عزیزم مفتی محمد عادل خان ندوی نے حضرت سے میری بات ٹیلیفون پر کرائی تو آپ بار بار یہی جملہ فرما رہے تھے: ٹونک تو ہمارا وطن ہے، ہمارے خاندان کا ایک بڑا طبقہ وہیں قیام پذیر رہا ہے۔ ٹونک اللہ والوں کی بستی ہے۔ حضرت مولانا سے میرا بذات خود بہت گہر اتعلق رہا۔ حضرت میرے استاذ بھی تھے، ’’الأدب العربي‘‘ آپ سے پڑھی۔ آپ کی خاندانی مسجد پکریا والی مسجد (مسجد نوازی) میں میں نے تین سال امامت کی۔ وہیں قیام رہا۔ آپ کے گھر سے کھانا آتا تھا۔ میں ندوہ میں زیر تعلیم تھا حضرت مولانا سید سلمان صاحب حسنی مجھے امامت کے لیے لے گئے تھے۔ وہیں مع اہلیہ اور بچوں کے مسجد کے حجرے میں رہتا تھا۔ حضرت مولانا رابع صاحب ، حضرت مولانا ابوبکر صاحب، حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب حسنی، حضرت مولانا واضح رشید صاحب ندوی اور آپ کے خاندان کے دوسرے افرادسے فجر کے بعد روزانہ ملاقاتیں ہوتیں۔ چائے ساتھ میں پیتے۔ اس دوران تربیت بھی ہوئی اور سرپرستی بھی حاصل ہوئی۔ ایک مرتبہ ایسا بھی موقع آیا رمضان میں تراویح بھی سنائی۔ تکیہ جانا ہوتا حضرت مولانا علی میاں کو معلوم ہوتا کہ عامر آیا ہوا ہے وہ نماز پڑھانے کے لیے ضرور کہتے۔

۲۰۱۵؁ء میں جب آپ ٹونک تشریف لائے تو غریب خانے میں قیام و طعام کا نظم رہا۔ آپ کا عمومی بیان مسجد قافلہ میں ہوا اور آپ قیام کے دوران بار بار یہ فرماتے رہے: ٹونک ہمارا وطن ہے، ہمارے خاندان کا بڑا حصہ یہاں عرصۂ دراز تک مقیم رہا۔ اس موقع پر آپ کے ساتھ ہمیشہ کے ساتھی ادیب بارع حضرت مولانا واضح رشید صاحب اور دار العلوم ندوۃ العلماء کے موجودہ ناظم حضرت مولانا سید بلال عبد الحی حسنی دامت برکاتہم تھے۔ قیام کا نظم کسی اور جگہ تھا۔ لیکن جب ہمارے غریب خانہ پر ضروریات سے فارغ ہونے پہنچے تو حضرت مولانا واضح رشید صاحب نے فرمایا: عامر ہم یہیں قیام کریں گے۔ ہمیں یہاں انسیت محسوس ہورہی ہے۔ یہ وہی کمرہ تھا جہاں مفتی احمد حسن صاحب ٹونکیؒ، مولوی سعید صاحب مد ظلہ العالی اور مفتی ولی حسن صاحب ٹونکیؒ نے برسہا برس تعلیم حاصل کی۔ یہ وہ کمرہ تھا جہاں مفکر اسلام رحمہ اللہ نے بھی قیام فرمایا تھا۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں ٹونک کے عدالت شرع شریف کے آخری ناظم شریعت حضرت مولانا قاضی محمد عرفان خان صاحبؒ کی قیام گاہ اور مطالعہ گاہ تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں بوعلی شاہ قلندر سے نسبی تعلق رکھنے والی ایک نیک خاتون میری خوش دامن سیدہ حفصہؒ نے عرصۂ دراز تہجد پڑھی ہے۔

اس سفر میں حضرت نے جامعہ سید احمد شہید اور مدرسہ عالیہ فرقانیہ اور مرکز الامین الاسلامی کا ملاحظہ فرمایا۔ دعاؤں سے نوازا۔ رات میں بعد نماز عشاء اجلاس عام جس مسجد میں رکھا گیا وہ مسجد قافلہ آپ ہی کے بزرگوں کی بنائی مسجد ہے۔ اولاً حضرت مولانا سید بلال حسنی صاحب کا خطاب ہوا پھر حضرت کا خطاب ہوا۔ مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی تھی باہر اسکرین لگی ہوئی تھی۔ مجمع حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی رحمۃ اللہ کی زیارت کا مشتاق تھا۔ حضرت کے نصیحت آمیز پر مغز بیان سے سامعین محو ہوگئے۔ اور دیرینہ نقش دلوں پرمنقش ہوگئے، جو آج تک باقی ہیں۔ اس سفر میں آپؒ کے ایک مرید و مجاز و خلیفہ حضرت مولانا ابراہیم صاحب بھی ٹونک تشریف لائے اور حضرت کے ساتھ رہے۔ اس موقع پر خصوصی ملاقات میں مولوی محمد سعید صاحب مد ظلہ العالی نے حضرت سے عرض کیا مسجد قافلہ کے اوقات نماز جب سے مسجد بنی ہے شوافع کے لحاظ سے ہیں لیکن ابھی نہ کوئی شافعی ہے مقتدیوں میں اور نہ امام شافعی ہے۔ میں پچاس سالوں مسجد کی خدمت اسی وقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کررہا ہوں اب ایک حلقہ پیدا ہوگیا وہ اس وقت کوبدلنے کی بات کرتا ہے۔ آپ کے بزرگوں کا بنایا ہوا وقت ہے۔ آپ اپنے ہاتھ سے تبدیل کردیں تو حضرت نے فرمایا میں یہ جرأت نہیں کرسکتا۔ امام شافعیؒ بھی ہمارے امام ہیں ان کا مسلک بھی قرآن و سنت سے ماخوذ ہے۔

مفکر اسلامؒ کی حیات میں ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد سعید صاحب، مولانا محمد عمر خان صاحب ندوی اور میں احقر حضرت مولانا سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے، دوران ملاقات اجازت حدیث کی خواہش ظاہر کی تو حضرت نے اول و آخر احادیث پڑھواکر اجازت حدیث ان الفاظ میں مرحمت فرمائی ’’أمانتکم رُدّت إلیکم‘‘

میں نے تین سال سے زاید عرصہ تک مسجد پکریا گوئن روڈ لکھنؤ میں امامت کی۔ میں نے حسنی خانوادے کو بہت قریب سے دیکھا ہے ان کی زندگیاں اسلاف کی نمونہ ہیں۔ خاندان کے مرد ہوں یا خواتین، عبادت، تلاوت، صدقات وخیرات خدمت خلق پاکدامنی و پاکبازی، شرافت و امانت دیانت داری، دنیا سے بے رغبتی جیسی سینکڑوں صفات حمیدہ سے یہ خاندان متصف ہے۔ اور خصوصیت کے ساتھ حضرت مولانا رابع صاحب بے پناہ منکسر المزاج تھےت۔ اگر شان ندوہ مفکر اسلام مولانا علی میاں ندوی ہیں تو جان ندوہ مولانا محمد رابع صاحب حسنی ہیں۔ پورا خاندان آفتاب و مہتاب ہے۔ ایں خانہ ہمہ آفتاب است کے مصداق ہیں۔

ہم دل کی گہرائیوں سے مولانا کے انتقال پر غمزدہ ہیں۔ لواحقین و متعلقین مولانا جعفر حسنی صاحب، مولانا سید بلال عبد الحیٔ حسنی صاحب ناظم دار العلوم ندوۃ العلماء اور دیگر اعزاء و اقرباء کے غم میں شریک ہیں ۔ اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

ننگ اسلاف
محمد عامر خان ندوی ٹونکی
جامعہ سید احمد شہیدؒ، گنج شہیداں، ٹونک، راجستھان

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے