بابری مسجد، تاریخ کے آئینہ میں – قسط دوم

بابری مسجد، تاریخ کے آئینہ میں

قسط دوم

محمد حسرت رحمانی

برطانوی دور اقتدار میں بابری مسجد کے نام پر پہلی بار 1859 میں تنازعہ کا ذکر ملتا ہے۔ موقع سے فائدہ اٹھاکر برطانوی حکومت نے مسجد کے بیرونی احاطے کو الگ کردیا۔ 1949 تک یہ صورت حال جوں کی توں رہی، اسی دوران مسجد کے اندر مورتی رکھ دی گئی، جس کا الزام ہندو مہاسبھا پر ہے۔ چنانچہ فریقین نے مقدمہ دائر کیا پھر کیا تھا، مسجد کی جگہ کو متنازعہ مقام قرار دے کر مسجد مقفل کردی گئی۔ (’’ایودھیا کے مقدس مقام کا بحران‘‘۔ بی بی سی نیوز۔ 25 دسمبر 2018)

وشو ہندو پریشد نے 1980 کی دہائی میں ایک مہم چلائی جس کے تحت اس جگہ رام مندر کی تعمیر کا عزم کیا گیا اور ملک بھر میں ریلیاں کی گئیں۔ یہیں سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو نشو ونما حاصل ہوئی اور وہ وشو ہندو پریشد کا مہرہ بن کر اس مہم میں کلیدی کردار ادا کرنے لگی۔ (دی ٹائمز آف انڈیا۔ 2014-07-22)

1986 میں ڈسٹرکٹ جج کے ایک فیصلے نے اس مہم کو تقویت فراہم کی جس کی رو سے مسجد کے دروازے کھول کر اس میں ہندوؤں کو پوجا کرنے کی اجازت دی گئی۔ (’’ایودھیا کے مقدس مقام کا بحران‘‘۔ بی بی سی نیوز۔ 25 دسمبر 2018)

بی جے پی کے سنیئر لیڈر ایل کے اڈوانی نے ستمبر 1990 میں رتھ یاترا شروع کی، اس موقع پر لالو یادو نے انہیں گرفتار کیا۔ اس کے نتیجے میں لالو یادو سیکولر حلقے کے مقبول لیڈر بن گئے اور بہار میں ایک طویل عرصے تک انہیں اقتدار ملا رہا۔ دوسری طرف اس رتھ یاترا کا بڑا فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ملا اور پارلیمنٹ میں جہاں اس کو تقویت ملی وہیں اترپردیش میں اکثریت مل گئی۔ (رام چندر گوہا (2007)۔ انڈیا آفٹر گاندھی۔ مک ملن۔ صفحہ: 633–659)

6 دسمبر 1992 کو وشو ہندو پریشد اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے ڈیڑھ لاکھ رضاکاروں کو جمع کیا۔ اس اجتماع نے تشدد کی شکل اختیار کی اور بابری مسجد کے حفاظتی حصار کو توڑکر مسجد شہید کردی گئی۔ اس درمیان کئی ماہ تک فسادات ہوتے رہے جس کے نتیجہ میں تقریباً دو ہزار افراد شکار ہوئے۔ (’’ایودھیا کے مقدس مقام کا بحران‘‘۔ بی بی سی نیوز۔ 17 اکتوبر 2003)

(جاری)

قسط اول پڑھیں

    • واٹساپ میں اپڈیٹ پانے کے لیے ہمارے واٹساپ چینل کو فالو کریں! (کلک کریں)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1 thought on “بابری مسجد، تاریخ کے آئینہ میں – قسط دوم”

  1. Pingback: बाब्री मस्जिद इतिहास के आईने में - क़िस्त 2