بابری مسجد، تاریخ کے آئینہ میں
قسط پنجم
محمدحسرت رحمانی
6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت کے دن دو ایف آئی آر درج کی گئی۔ ایک ایف آئی آر میں نامعلوم افراد کے خلاف اور دوسرے میں آٹھ نامزد لوگوں کے خلاف معاملہ درج کیا گیا تھا۔ بعد میں مزید نام شامل کیے گئے۔ اس کیس کی چارج شیٹ میں بی جے پی کے سینئر رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ سمیت 49 افراد کے نام شامل تھے۔
سپریم کورٹ نے 2017 میں اس کیس کو دو سال کے اندر مکمل کرلینے کا حکم دیا تھا۔ یہ مدت اپریل 2019 میں ختم ہوگئی تو اس میں مزید نو ماہ کی توسیع کردی گئی۔ فیصلہ سنانے والے جج ایس کے یادو30 ستمبر2019 کو ریٹائر ہونا تھا لیکن سپریم کورٹ نے ان کی سروس میں خاص فیصلہ سنانے کے لیے توسیع کی۔ کورونا کی وجہ سے اس میں مزید تاخیر ہوئی۔ (ڈی ڈبلیو ڈی، 30 ستمبر 2020)
فیصلہ کے وقت 17 لوگوں کی وفات ہوچکی تھی، بقیہ 32 ملزمین کو کورٹ میں رہنے کی ہدایت دی گئی تھی لیکن اڈوانی اور جوشی سمیت چھ ملزمین کو ان کی عمر کی رعایت کرتے ہوئے ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ عدالتی کارروائی میں شرکت کی اجازت ملی۔
تاریخی بابری مسجد کی شہادت کے 28 برس بعد 30 ستمبر 2020 کو لکھنؤمیں سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج ایس کے یادو نے لال کرشن اڈوانی سمیت سبھی 32 ملزمین کو یہ کہتے ہوئے بری کردیا کہ استغاثہ نے ملزمین کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے۔ جج نے اپنے دو ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا کہ بابری مسجد کا انہدام منصوبہ بند نہیں تھا۔ عدالت نے یہ بھی مانا کہ ملزم لیڈران نے مشتعل ہجوم کو ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ ملزمین کی تقریرکی آڈیو پرعدالت اس نتیجہ پر پہونچی کہ تفتیشی ایجنسی نے جو آڈیو اور ویڈیو ٹیپ پیش کیا ہے اس کی معتبریت ثابت نہیں ہوسکی اور تقریر کی آواز بھی صاف نہیں ہے۔
لال کرشن اڈوانی نے ایک بیان جاری کرکے کہا ”میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ یہ فیصلہ نومبر 2019 میں سپریم کورٹ کے دیے گئے اس فیصلے کے مطابق آیا جس نے اجودھیا میں ایک رام مندر کی تعمیر کا راستہ یقینی بنایا اور جس کا سنگ بنیاد 5 اگست کو رکھا گیا تھا۔ اس فیصلے نے ان کی اور بی جے پی کی رام جنم بھومی تحریک کے حوالے سے ان کے اعتماد کو مزید مستحکم کیا ہے۔‘‘
اس کیس میں بری ہونے والے ایک اور ملزم سابق مرکزی وزیر مرلی منوہر جوشی نے اسے تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ سب منصوبہ بند نہیں تھا۔
جب کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر ٹرسٹ کو دینے کے اپنے فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے تسلیم کیا تھا کہ بابری مسجد تھی، یہ ثبوت نہیں مل سکا کہ مندر توڑکر مسجد بنائی گئی اور یہ بھی کہا تھا کہ بابری مسجد کا انہدام غلط تھا، لیکن اس غلطی کا مجرم کون ہے، قانونی طور پرثابت نہیں ہوسکا، کیوں کہ تمام ملزمان بری کردیے گئے۔ مارچ 2015 میں عدالت عظمیٰ میں داخل درخواست میں یہی خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ سی بی آئی، حکمراں جماعت کے لیڈروں کے ساتھ آزادانہ جانچ نہیں کرسکتی، چنانچہ جو آڈیو اور ثبوت پیش کیے گئے وہ غیرواضح تھے جس کی بنیاد پر ملزمان بری کیے گئے
مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن عاملہ ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس وقت بیان دیا تھا کہ ’’حکومت نے بابری مسجد کے انہدام کی انکوائری کے لیے لبراہن کمیشن مقرر کیا تھا۔ جس نے 17 بر س کی جانچ کے بعد اپنی رپورٹ میں صاف طور پر بتایا کہ بابری مسجد کی شہادت کی سازش کے لیے کون کون لوگ اور کون کون سی تنظیمیں اس کے لیے ذمہ دار ہیں۔‘‘
(جاری)
-
- قسط اول پڑھیں
- قسط دوم پڑھیں
- قسط سوم پڑھیں
- قسط چہارم پڑھیں
- واٹساپ میں اپڈیٹ پانے کے لیے ہمارے واٹساپ چینل کو فالو کریں! (کلک کریں)
Pingback: बाबरी मस्जिद इतिहास के आईने में - क़िस्त 5