بابری مسجد، تاریخ کے آئینہ میں – قسط ششم

بابری مسجد، تاریخ کے آئینہ میں

قسط ششم

محمد حسرت رحمانی

بابری مسجد کے دو معاملے تھے، ایک شہادت کے مجرمین کو سزا دلانا، اس وقت اسی جانچ کے لیے ایک کمیشن کی تشکیل کی گئی پھر اس پر جو فیصلہ آیا، اس کی وضاحت گزشتہ قسط میں کردی گئی۔ دوسرا معاملہ حق ملکیت کا تھا، اب ہم اس پہلو پر گفتگو کرتے ہیں۔

سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے جنوری 2002 میں ایودھیا کمیشن کی تشکیل کی، جس کا مقصد ہندو و مسلمانوں سے بات چیت کرکے تنازعہ کو حل کرنا تھا۔

بابری مسجد کی جگہ پر مالکانہ حق کے تعلق سے یکم اپریل 2002 کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے تین ججوں کی بنچ میں سماعت کا آغاز کیا گیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے 5 مارچ 2003 کو محکمہ آثار قدیمہ کو کھدائی کرنے کا حکم دیا تاکہ مسجد اور مندر کے ثبوت مل سکیں۔ محکمہ آثار قدیمہ نے 22 اگست 2003 کو کھدائی کے بعد اپنی رپورٹ الہ آباد ہائی کورٹ میں جمع کردی جس کی رو سے مسجد کے نیچے 10 ویں صدی عیسوی کے مندر کی باقیات کا اشارہ کیا گیا، اس رپورٹ کو مسلم پرسنل لا بورڈ نے چیلنج کیا۔ چنانچہ اکتوبر 2003 میں مسلم تنظیموں کی جانب سے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی رپورٹ کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

شیوسینا کے لیڈر بال ٹھاکرے نے مسئلے کے حل کے لیے بابری مسجد کی جگہ پر قومی یادگار کی تعمیر کی تجویز پیش کی۔

بی جے پی لیڈر لال کرشن اڈوانی نے اکتوبر 2004 میں مندر کی تعمیر کے عزم کا اعادہ کیا۔

الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے 26 جولائی 2010 کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھا اور تمام فریقوں کو اتفاق رائے اور مصالحت کے لیے راہ نکالنے کا مشورہ دیا، لیکن کوئی فریق سامنے نہیں آیا، فریقوں کا کہنا تھا کہ عدالت میں معاملہ ملکیت کا ہے، شواہد کی روشنی میں عدالت کو ملکیت پر فیصلہ کرنا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے 28 ستمبر 2010 کو الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ دینے سے روکنے والی درخواست خارج کی جس کے بعد فیصلہ کی راہ ہموار ہوئی۔

الہ آباد ہائی کورٹ نے بیچ کی راہ نکالتے ہوئے اپنے فیصلے میں بابری مسجد کی زیادہ تر زمین ہندوؤں کے دو فریقوں کو دے دی۔ تاہم سابقہ مسجد کی زمین کے ایک تہائی حصے پر مسجد کی ازسرنو تعمیر کی گنجائش رکھی۔ 30 ستمبر 2010 کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے اپنے فیصلے میں 2.77 ایکڑ اراضی کو سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا کے درمیان برابر یعنی تین حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس فیصلہ پر کوئی فریق مطمئن نہیں ہوا، کیوں کہ کیس ملکیت کا داخل کیا گیا تھا اورعدالت کو یہ بتانا تھا کہ زمین کس کی ہے۔ اس فیصلہ کے خلاف 14 فریقوں نے عدالت میں اسپیشل پرمیشن پٹیشن (خصوصی اجازت عرضی) دائر کی۔ سپریم کورٹ نے 5 دسمبر 2017 کو واضح کیا کہ وہ 8 فروری سے ان درخواستوں پر سماعت شروع کرے گا۔

ہندو گرو شری شری روی شنکر نے 16 نومبر 2017 کو معاملہ کو حل کرنے کی کوشش شروع کی اور اس ضمن میں انہوں نے کئی فریقوں سے ملاقات بھی کی۔

سنی وقف بورڈ کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل راجیو دھون نے 8 فروری 2018 کو سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی کہ وہ اس معاملے پر باقاعدہ سماعت کریں لیکن بنچ نے ان کی اپیل مسترد کر دیا۔

عدالت نے 27 ستمبر 2018 کو، 1994 کے اسماعیل فاروقی بنام یونین آف انڈیا معاملہ میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’مسجد اسلام کا لازمی جز نہیں‘۔ اس کو چیلنج کرنے والی عرضی کو سپریم کوٹ نے مسترد کردیا لیکن یہ بھی واضح کیا کہ وہ فیصلہ مخصوص صورت حال میں زمین کو تحویل میں لینے کے لیے دیا گیا تھا اور اس کا اثر کسی دوسرے معاملہ پر نہیں ہوگا۔

29 اکتوبر 2018۔ سپریم کورٹ نے 29 اکتوبر 2018 کو مقدمہ کی جلد سماعت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے سماعت جنوری 2019 تک کے لیے ملتوی کر دی۔ سپریم کورٹ نے 8 مارچ 2019 کو معاملے کو ثالثی کے ذریعہ حل کرنے کے لیے پینل کی تشکیل کی اور پینل کو 8 ہفتوں میں ثالثی کے عمل کو مکمل کرنے کی ہدایت دی۔ سپریم کورٹ کے ذریعہ تشکیل شدہ یہ پینل جسٹس خلیف اللہ (چیئرمین)، شری شری روی شنکر اور سری رام پنچو پر مشتمل تھا۔

تاہم اگست 2019 تک ثالثی پینل کوئی حل نکالنے میں ناکام رہا۔ یکم اگست 2019 کو ثالثی پینل نے اپنی رپورٹ پیش کی، پھر 6 اگست سے سپریم کورٹ میں یومیہ سماعت شروع ہوئی۔

سپریم کوٹ نے 16 اکتوبر 2019 کو کیس کی سماعت مکمل کی اور فیصلہ محفوظ رکھا۔

(جاری)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1 thought on “بابری مسجد، تاریخ کے آئینہ میں – قسط ششم”

  1. Pingback: बाबरी मस्जिद इतिहास के आईने में - क़िस्त 6