بابری مسجد، تاریخ کے آئینہ میں
قسط ہفتم (آخری قسط)
محمد حسرت رحمانی
سپریم کورٹ نے یومیہ سماعت کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ رکھا تھا، جس میں مسلم فریقوں کی جانب سے راجیووردھن سمیت متعدد وکلا نے زوردار بحث کی۔ چنانچہ 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے مسلم فریقوں کے تمام شواہد کو گویا تسلیم کیا لیکن فیصلہ آستھا کی بنیاد اور اپنے خصوصی اختیارات کی بنیاد پر سناتے ہوئے کہا کہ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کے لیے اراضی ٹرسٹ کو سونپ دی جائے اور حکومت اس ٹرسٹ کو تشکیل دے۔ اس کے علاوہ متبادل کے طور پر سنی وقف بورڈ کو کسی دوسرے مقام پر مسجد تعمیر کے لیے زمین دی جائے۔
یہ فیصلہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے سنایا۔ (واضح رہے کہ رنجن گگوئی ریٹائرمنٹ کے بعد راجیہ سبھا کے رکن بنائے گئے۔) اس بینچ میں جسٹس رنجن گگوئی کے علاوہ ایس ایس بوبڈے، ڈی وائی چندچوڑ، اشوک بھوشن اورعبد النذیر شامل تھے۔
چیف جسٹس آف انڈیا کے مطابق متفقہ فیصلہ یوں ہے:
محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ کے مطابق اس جگہ پر پہلے مندر تھا لیکن محکمے نے یہ تصدیق نہیں کی کہ مندر گراکر بابری مسجد تعمیر کی گئی یا نہیں۔ مسجد مندر توڑکر نہیں بنائی گئی (یعنی عدالت نے اس مفروضہ کی پوری طرح ہوا نکال دی کہ بابری مسجد، کسی مندر کو گراکر بنائی گئی، عدالت نے تسلیم کیا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں)
آثار قدیمہ کے مطابق مسجد کے نیچے کسی مندر کے باقیات تھے اور محکمے نے اس کے ثبوت بھی پیش کیے تھے۔ لیکن آثار قدیمہ نے یہ نہیں کہا تھا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر اس کے اوپر تعیمر کی گئی تھی۔ (بی بی سی 8 نومبر2019)
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا سے آثار قدیمہ کے شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ بابری مسجد ایک اسٹرکچر پر تعمیر کی گئی تھی، جس کا فن تعمیر واضح طور پر مقامی اور غیر اسلامی تھا۔ (یعنی وہ ہندو عبادت گاہ تھی، یہ ثابت نہیں ہو سکا)
چسٹس گوگوئی نے مزید کہا کہ سنہ 1949 میں بابری مسجد کے اندر مورتی رکھنا عبادت گاہ کی بے حرمتی کا عمل تھا اور سنہ 1992 میں اسے منہدم کیا جانا قانون کی خلاف ورزی تھی۔ انھوں نے کہا کہ سنہ 1949 میں مسلمانوں کو مسجد سے بے دخل کیے جانے کا عمل قانون کے تحت نہیں تھا۔ (بی بی سی، 8 نومبر 2019)
*(واضح ہو کہ مسجد کے اندر سنہ 1949 میں 22 اور 23 دسمبر کی درمیانی شب ضلع مجسٹریٹ کی مدد سے رام کی بچپن کی مورتی رکھی گئی۔ جسے کہا گیا کہ یہاں رام پرکٹ ہوگئے، یہ بھی یاد رہے کہ 22 دسمبر 1949 تک بابری مسجد میں نماز ہوتی رہی، یہی تاریخ اس معاملہ کا ٹرننگ پوائنٹ ہے، جب بابری مسجد کو متنازع مقام بتاکر اسے مسلمانوں سے چھین لیا گیا، اگر صرف قبضہ کی بنیاد پر وہ جگہ دوسرے فریق کو دی گئی تو مسلمانوں کا بھی اس پر 1949 تک قبضہ ثابت ہے)*
*(اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے مسجد سے مورتی ہٹانے کا حکم دیا لیکن ضلع مجسٹریٹ نے اس پر عمل کرنے سے انکار کردیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انتظامیہ کی ملی بھگت سے سب کچھ انجام پذیر ہوا) (بی بی سی سے ماخوذ 6 دسمبر 2020)*
سپریم کورٹ نے 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت کو غیرقانونی قراردیا۔ نیز یہ بھی کہا کہ 1949 میں مسجد کی بے حرمتی قانون کی خلاف ورزی تھی (لیکن قانون کی خلاف ورزی اور غیرقانونی اقدام کرنے والے ملزمین کے حق میں کیا فیصلہ ہوا وہ گزشتہ قسط میں آچکاہے)
عدالت نے حکم دیا کہ سنی وقف بورڈ کو مسجد کی تعمیر کے لیے ایودھیا میں 5 ایکڑ کی متبادل جگہ دی جائے۔ (اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ عدالت نے اس جگہ پر مسلمانوں کا مالکانہ حق تسلیم کیا تبھی تو دوسری جگہ دی) عدالت نے بابری مسجد کی جگہ ہندوؤں کو دینے کا حکم دیتے ہوئے مندر کی تعمیر کے لیے تین ماہ میں ٹرسٹ قائم کرنے کی بھی ہدایت کی ۔
(دی ٹائمز آف انڈیا، 11 نومبر 2019 )
عدالتی فیصلے پر اپنے ردعمل میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اس وقت کہا تھا کہ اس فیصلے کو کسی کی جیت اور کسی کی شکست کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ ’رام بھکتی ہو یا رحیم بھکتی، یہ وقت ہم سبھی کی بھارت بھکتی کی روح کو مضبوط کرنے کا ہے۔ میری اہل وطن سے اپیل ہے کہ وہ امن، ہم آہنگی اور اتحاد کو برقرار رکھیں۔‘ (لیکن ابھی جو صورت حال ہے اسے ایک فریق کی جیت اور دوسرے کی شکست کے طور پر دیکھا جارہا ہے)
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے توقعات کے برعکس قرار دیا ہے۔ بابری مسجد کمیٹی کے ظفریاب جیلانی نے کہا تھا کہ قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے کر نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے مسلمانوں کو پرامن رہنے کی اپیل کی۔ چنانچہ مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمیعۃ علمائے ہند نے 17 نومبر 2019 کو نظر ثانی کی درخواست داخل کی جسے 12 دسمبر 2019 کو مسترد کردیا گیا۔
4 اگست 2020 کو جب رام مندر کی بنیاد رکھی جارہی تھی اس وقت آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سابق جنرل سکریٹری امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒ نے نہایت جرات مندانہ اور حوصلہ افزا بیان دیا تھا، آج کے تقاضے کے پیش نظر اسے دوبارہ پڑھنا چاہیے.
*حضرت مولانا محمد ولی رحمانی نے کہا:*
’’آج جب کہ بابری مسجد کے مقام پر ایک مندر کی بنیاد رکھی جا رہی ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اپنے دیرینہ موقف کو دہرانا ضروری سمجھتا ہے کہ شریعت کی روشنی میں جہاں ایک بار مسجد قائم ہوجاتی ہے وہ تاقیامت مسجد رہتی ہے۔ لہذا بابری مسجد کل بھی مسجد تھی، آج بھی مسجد ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی مسجد رہے گی۔ مسجد میں مورتیاں رکھ دینے سے، پوجا پاٹ شروع کردینے سے یا ایک لمبے عرصہ تک نماز پر روک لگا دینے سے مسجد کی حیثیت ختم نہیں ہو جاتی۔
ہمارا ہمیشہ سے یہ مو قف رہا ہے کہ بابری مسجد کسی مندر یا کسی ہندو عبادت گاہ کو توڑ کر نہیں بنائی گئی، الحمد للہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ (نومبر 2019) میں ہمارے اس موقف کی تصدیق کردی ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ بابری مسجد کے نیچے کھدائی میں جو آثار ملے وہ 12 ویں صدی کی کسی عمارت کے تھے بابری مسجد کی تعمیر سے چار سو سال قبل؛ لہذا کسی مندر کو توڑکر مسجد نہیں بنائی گئی۔ سپریم کورٹ نے صاف طور پر کہا کہ بابری مسجد میں 22 دسمبر1949 کی رات تک نماز ہوتی رہی ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ بھی ماننا ہے کہ 22 دسمبر 1949 میں مورتیوں کا رکھا جانا ایک غیر قانونی اور غیر دستوری عمل تھا۔ سپریم کورٹ کا یہ بھی مانتا ہے کہ 6 دسمبر 1992 کو بابری کی شہادت ایک غیر قانونی، غیردستوری اور مجرمانہ فعل تھا۔ افسوس کہ ان تمام واضح حقائق کو تسلیم کرنے کے باوجود کورٹ نے ایک انتہائی غیر منصفانہ فیصلہ دیا مسجد کی زمین ان لوگوں کے حوالے کردی جنہوں نے مجرمانہ طریقہ پر اس میں مورتیاں رکھیں اور اس کی شہادت کے مرتکب ہوئے۔
چونکہ عدالت عظمٰی ملک کی اعلی ترین عدالت ہے، لہذا اس کے حتمی فیصلہ کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ تاہم ہم یہ ضرور کہیں گے یہ ایک ظالمانہ اور غیر منصفانہ فیصلہ ہے جو اکثریتی زعم میں دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019 کو فیصلہ ضرور دیا ہے مگر انصاف کو شرمسار کیا ہے۔ الحمد للہ ہندوستانی مسلمانوں کے نمائندہ اجتماعی پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر فریقوں نے بھی عدالتی لڑائی میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا۔ یہاں یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ ہندتوا عناصر کی یہ پوری تحریک ظلم، جبر، دھونس، دھاندلی، کذب اور افترا پر مبنی تحریک تھی۔ یہ سراسر ایک سیاسی تحریک تھی جس کا مذہب یا مذہبی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جھوٹ اور ظلم پر مبنی عمارت کبھی بھی پائیدار نہیں ہوتی۔
مولانا رحمانی نے حوصلہ دیتے ہوئے مزید کہا:
حالات چاہے جتنے خراب ہوں ہمیں حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے اور اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ مخالف حالات میں جینے کا مزاج بنانا چاہیے۔ حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ تِلْکَ الأَیّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ (یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں، جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں)۔ لہذا ہمیں نہ تو مایوس ہونا ہے اور نہ حالات کے آگے سپر ڈالنا ہے۔ *ہمارے سامنے استنبول کی آیا صوفیاء مسجد کی مثال اس آیت کی منہ بولتی تصویر ہے*۔ میں مسلمانان ہند سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ اور مسجد کی زمین پر مندر کی تعمیر سے ہرگز بھی دلبرداشتہ نہ ہوں۔
*ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے توحید کا عالمی مرکز اور اللہ کا گھر خانہ کعبہ بھی ایک لمبے عرصہ تک شرک و بت پرستی کا مرکز بنا رہا بالآخر فتح مکہ کے بعد پیارے نبی صلی اللہ و علیہ وسلم کے ذریعہ وہ دوبارہ مرکز توحید بنا۔ ان شاء اللہ ہمیں پوری توقع ہے کہ صرف بابری مسجد ہی نہیں یہ پورا چمن نغمہ توحید سے معمور ہوگا*۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ ایسے نازک موقعہ پر اپنی غلطیوں سے توبہ کریں، اخلاق و کردار کو سنواریں، گھر اور سماج کو دیندار بنائیں اور پورے حوصلہ کے ساتھ مخالف حالات میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کریں۔
*(ان ہی اہم پیغامات کے ساتھ اقساط مکمل ہوئیں، اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہم اپنی تاریخ اور اپنی مسجد کو یاد رکھیں اور حوصلہ شکن نہ ہوں۔ کورٹ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ وہاں مسجد تھی اور اس کی شہادت غیرقانونی ہے، نیز کورٹ نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ یہ شواہد نہیں مل سکے ہیں کہ مسجد، مندر توڑکر بنائی گئی، یہ بھی طے ہے کہ 22 دسمبر 1949 تک وہاں نماز ہوتی رہی، ہم اپنی نسلوں کواس حقیقت کو بتائیں کہ یہ شواہد موجود ہیں کہ مسجد شہید کرکے مندر کی تعمیر کی گئی لیکن مندر توڑکرمسجد بنائی گئی، کورٹ کو خود اس کا ثبوت نہیں مل سکا۔)*
-
- قسط اول پڑھیں
- قسط دوم پڑھیں
- قسط سوم پڑھیں
- قسط چہارم پڑھیں
- قسط پنجم پڑھیں
- قسط ششم پڑھیں
- واٹساپ میں اپڈیٹ پانے کے لیے ہمارے واٹساپ چینل کو فالو کریں! (کلک کریں)
Pingback: बाबरी मस्जिद इतिहास के आईने में - क़िस्त 7 (आख़िरी क़िस्त)