بابری مسجد، تاریخ کے آئینہ میں – قسط سوم

بابری مسجد، تاریخ کے آئینہ میں

قسط سوم

محمدحسرت رحمانی

بابری مسجد کی شہادت کے بعد جلد بازی میں ایک علامتی مندر بنا دیا گیا۔ اسی دوران سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے مسجد کی ازسر نو تعمیر کا وعدہ کیا۔

16 دسمبر 1992 کو بابری مسجد شہادت کے لیے ذمہ دار لوگوں کی تحقیقات کے لیے ایم ایس لبراہن کمیشن کی تشکیل کی گئی۔

ایک عرصہ بعد 2009 میں جسٹس منموہن سنگھ لبراہن کی رپورٹ میں 68 افراد کو بابری مسجد کی شہادت کا ملزم بتایا گیا جن میں واجپئی، اڈوانی اور جوشی سمیت بی جے پی لیڈروں کی بڑی تعداد تھی، اس وقت کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ تنقید کی زد میں آئے اور ایسا اندازہ لگایا گیا کہ انہوں نے عمداً ایسے سرکاری افسران کی تعیناتی کی جو شہادت مسجد کے وقت خاموش رہے۔ (الجزیرہ۔ 24 نومبر 2009ء)

بابری مسجد کی شہادت کے وقت انجوگپتا لال کرشن اڈوانی کے سیکوریٹی سربراہ تھے۔ ان کا بیان ہے کہ اڈوانی اور جوشی کی تقریر کے نتیجے میں مجمع مشتعل ہوا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ کچھ بی جے پی لیڈران نے رسمی انداز میں رضاکاروں کو روکنے کی کوشش کی، جسے میڈیا کے سامنے محض اپنی شبیہ ٹھیک کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ کسی نے رضاکاروں کو مسجد کے علاقے میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ (وی۔ ونکاتیسان (16 جولائی 2005)

رپورٹ کے الفاظ ہیں:

’’رہنماؤں کا یہ رویہ واضح طور پر بتا رہا ہے کہ وہ سب اس عمارت کی تباہی کے لیے ایک تھے۔‘‘

رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ:

’’اگر یہ رہنما چاہتے تو مسجد کے انہدام کو بہ آسانی روک سکتے تھے۔‘‘ ( این ڈی ٹی وی۔ 23 نومبر 2009)

1994 میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں بابری مسجد کی شہادت کے تعلق سے مقدمہ کا آغاز ہوا۔

(جاری)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1 thought on “بابری مسجد، تاریخ کے آئینہ میں – قسط سوم”

  1. Pingback: बाबरी मस्जिद इतिहास के आईने में - क़िस्त 3