عقل کا دائرہ کار -قسط ۱۵- ان احکام میں قیامت تک تبدیلی نہیں آئے گی

عقل کا دائرہ کار

قسط: ۱۵
(ماخوذ از اصلاحی خطبات، مفتی تقی عثمانی مد ظلہ العالی)
(جمع و ترتیب: محمد اطہر قاسمی)

ان احکام میں قیامت تک تبدیلی نہیں آئے گی

دوسرا حصہ، جس میں اجتہاد اور استنباط کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس کے اندر بھی حالات کے لحاظ سے علتوں کے بدلنے کی وجہ سے احکام کے اندر تغیر و تبدل ہو سکتا ہے۔ البتہ پہلا حصہ بیشک کبھی نہیں بدل سکتا۔ قیامت آجائے گی لیکن وہ نہیں بدلے گا۔ اس لیے کہ وہ درحقیقت انسان کی فطرت کے ادراک پر مبنی ہے۔ انسان کے حالات بدل سکتے ہیں؛ لیکن فطرت نہیں بدل سکتی۔ اور چونکہ وہ فطرت کے ادراک پر مبنی ہیں؛ اس لیے ان میں بھی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔

بہرحال! جہاں تک شریعت نے ہمیں گنجائش دی ہے، گنجائش کے دائرے میں رہ کر ہم اپنی ضروریات کو پورے طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔

اجتہاد کہاں سے شروع ہوتا ہے؟

اجتہاد کا دائرہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں نص قطعی موجود نہ ہو۔ جہاں نص موجود ہو وہاں عقل کو استعمال کرکے نصوص کے خلاف کوئی بات کہنا درحقیقت اپنے دائرہ کار (Jurisdiction) سے باہر جانے والی بات ہے۔ اور اسی کے نتیجے میں دین کی تحریف کا راستہ کھلتا ہے۔ جس کی ایک مثال آپ حضرات کے سامنے عرض کرتا ہوں:

خنزیر حلال ہونا چاہیے

قرآن کریم میں خنزیر کو حرام قرار دیا گیا ہے، اور یہ حرمت کا حکم وحی کا حکم ہے۔ اس جگہ پر عقل کو استعمال کرنا کہ صاحب! یہ کیوں حرام ہے؟ یہ عقل کو غلط جگہ پر استعمال کرنا ہے۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ بات دراصل یہ ہے کہ قرآن کریم نے خنزیر اس لیے حرام کیا تھا کہ اس زمانے میں خنزیر بڑے گندے تھے، اور غیر پسندیدہ ماحول میں پرورش پاتے تھے، اور غلاظتیں کھاتے تھے۔ اب تو خنزیر کے لیے بڑے ہائی جینک فارم (Hygienic Farm) تیار کیے گئے ہیں۔ اور بڑے صحت مندانہ طریقے سے پرورش ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ حکم اب ختم ہونا چاہیے۔ یہ اس جگہ پر عقل کو استعمال کرنا ہے جہاں وہ کام دینے سے انکار کر رہی ہے۔

سود اور تجارت میں کیا فرق ہے؟

اسی طرح جب ربا اور سود کو قرآن کریم نے حرام قرار دیا ہے۔ بس وہ حرام ہو گیا۔ عقل میں چاہے آئے یا نہ آئے۔ دیکھیے قرآن کریم میں مشرکین عرب کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا گیا:

’’اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبَا‘‘ ﴿سورۃ البقرۃ: ۲۷۵﴾

کہ بیع بھی ربا جیسی چیز ہے۔ تجارت اور بیع و شراء سے بھی انسان نفع کماتا ہے اور ربا سے بھی نفع کماتا ہے۔ لیکن قرآن کریم نے اس کے جواب میں فرق بیان نہیں کیا کہ بیع اور ربا میں یہ فرق ہے بلکہ یہ جواب دیا کہ:

’’وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبَا‘‘

بس! اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال قرار دیا ہے اور ربا کو حرام قرار دیا ہے۔ اب آگے اس حکم میں تمہارے لیے چوں چرا کی گنجائش نہیں۔ اس لیے کہ جب اللہ نے بیع کو حلال کردیا ہے تو حلال ہے اور جب اللہ نے ربا کو حرام کردیا اس لیے حرام ہے۔ اب اس کے اندر چوں چرا کرنا درحقیقت عقل کو غلط جگہ پر استعمال کرنا ہے۔ (جاری)


ہمارے واٹساپ چینل کو فالو کریں!

https://whatsapp.com/channel/0029VaKiFBWEawdubIxPza0l

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے