عقل کا دائرہ کار -قسط ۱۶- ایک واقعہ

عقل کا دائرہ کار

قسط: ۱۶ (آخری قسط)
(ماخوذ از اصلاحی خطبات، مفتی تقی عثمانی مد ظلہ العالی)
(جمع و ترتیب: محمد اطہر قاسمی)

ایک واقعہ

ایک واقعہ مشہور ہے کہ ہمارا ایک ہندوستانی گویّہ ایک مرتبہ حج کرنے چلا گیا۔ حج کے بعد وہ جب مدینہ شریف جارہا تھا۔ راستے میں منزلیں ہوتی تھیں، ان پر رات گزارنی پڑتی تھی۔ ایک منزل پر جب رات گزارنے کے لیے ٹھہرا تو وہاں ایک عرب گویہ آگیا۔ وہ بدو قسم کا عرب گویہ تھا۔ اس نے بہت بھدے انداز سے سارنگی بجاکر گانا شروع کیا۔ آواز بڑی بھدی تھی اور اس کو سارنگی اور طبلہ بھی صحیح بجانا نہیں آتا تھا۔ جب ہندوستانی گویے نے اس کی آواز سنی تو اس نے کہا کہ آج یہ بات میری سمجھ میں آگئی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے گانے بجانے کو کیوں حرام قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ آپ نے تو ان بدووں کا گانا سنا تھا۔ اگر آپ میرا گانا سن لیتے تو حرام قرار نہ دیتے۔ تو اس قسم کی فکر اور تھنکنگ (Thinking) ڈیوولپ (Develop) ہورہی ہے، جس کو اجتہاد کا نام دیا جارہا ہے۔ یہ نصوص قطعیہ کے اندر اپنی خواہشات نفس کو استعمال کرنا ہے۔

آج کے مفکر کا اجتہاد

ہمارے ہاں ایک معروف مفکر ہیں۔ ’’مفکر‘‘ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ وہ اپنی فیلڈ (Field) میں ’’مفکر‘‘ (Thinker) سمجھے جاتے ہیں۔ قرآن کریم کی یہ جو آیت ہے:

’’السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَھُمَا‘‘

کہ چور مرد اور چور عورت کا ہاتھ کاٹ دو۔

ان مفکر صاحب نے اس آیت کی یہ تفسیر کی کہ چور سے مراد سرمایہ دار ہیں جنہوں نے بڑی بڑی صنعتیں قائم کر رکھی ہیں۔ اور ’’ہاتھ‘‘ سے مراد ان کی انڈسٹریاں (Industries) اور ’’کاٹنے‘‘ سے مراد ان کا نیشنلائیزیشن (Nationalization) ہے۔ لہٰذا اس آیت کے معنیٰ ہیں کہ سرمایہ داروں کی ساری انڈسٹریوں کو نیشنلائیز کرلیا جائے اور اس طریقے سے چوری کا دروازہ بند ہوجائے گا۔

مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ

اس قسم کے اجتہادات کے بارے میں اقبال مرحوم نے کہا تھا کہ:

ز اجتہادے عالمانے کم نظر
اقتداء با رفتگاں محفوظ تر

کہ ایسے کم نظر لوگوں کے اجتہاد سے پرانے لوگوں کی باتوں کی اقتدا کرنا زیادہ محفوظ ہے۔

لیکن یہ ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ

بہرحال میں آج کی اس نشست سے یہ فائدہ اٹھانا چاہتا تھا اور شاید میں نے اپنے استحقاق اور اپنے وعدے سے بھی زیادہ وقت آپ حضرات کا لیا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ جب تک ’’اسلامائیزیشن آف لاز‘‘ کا فلسفہ ذہن میں نہ ہو، اس وقت تک محض ’’اسلامائیزیشن آف لاز‘‘ کے لفظ کی در و بست درست کرلینے سے بات نہیں بنتی۔

خرد نے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

اس لیے اسلامائیزیشن کا پہلا قدم یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا یقین ہو کہ ڈنکے کی چوٹ پر، سینہ تان کر، کسی معذرت خواہی کے بغیر، کسی سے مرعوب ہوئے بغیر یہ بات کہہ سکیں کہ ہمارے نزدیک انسانیت کی فلاح کا اگر کوئی راستہ ہے تو وہ صرف ’’اسلامائیزیشن‘‘ (Islamisation) میں ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور چیز میں نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم آپ کو اس کی حقیقت کو صحیح طور پر سمجھنے کی توفیق عطا فرمادے آمین۔

وَ آخر دعوانا أن الحمد للّٰهِ ربِّ العالمین


ہمارے واٹساپ چینل کو فالو کریں!

https://whatsapp.com/channel/0029VaKiFBWEawdubIxPza0l

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے