عقل کا دائرہ کار -قسط ۱۴- قرآن و حدیث میں سائنس اور ٹیکنالوجی

عقل کا دائرہ کار

قسط: ۱۴
(ماخوذ از اصلاحی خطبات، مفتی تقی عثمانی مد ظلہ العالی)
(جمع و ترتیب: محمد اطہر قاسمی)

قرآن و حدیث میں سائنس اور ٹیکنالوجی

یہیں سے ایک اور سوال کا جواب بھی ہوگیا، جو اکثر ہمارے پڑھے لکھے طبقے کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ صاحب! آج سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ساری دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کررہی ہے؛ لیکن ہمارا قرآن اور ہماری حدیث سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں کوئی فارمولا ہمیں نہیں بتاتا کہ کس طرح ایٹم بم بنائیں، کس طرح ہائیڈروجن بم بنائیں۔ اس کا کوئی فارمولا نہ تو قرآن کریم میں ملتا ہے اور نہ حدیث رسول ﷺ میں ملتا ہے۔ اس کی وجہ سے بعض لوگ احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں کہ صاحب! دنیا چاند اور مریخ پر پہنچ رہی ہے اور ہمارا قرآن ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں بتاتا کہ چاند پر کیسے پہنچیں؟

سائنس اور ٹیکنالوجی تجربہ کا میدان ہے

اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارا قرآن ہمیں یہ باتیں اس لیے نہیں بتاتا کہ وہ دائرہ عقل کا ہے۔ وہ تجربہ کا دائرہ ہے۔ وہ ذاتی محنت اور کوشش کا دائرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو انسان کے ذاتی تجربے عقل اور کوشش پر چھوڑا ہے کہ جو شخص جتنی کوشش کرے گا اور عقل کو استعمال کرے گا، تجربہ کو استعمال کرے گا، اس میں آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ قرآن آیا ہی اس جگہ پر ہے جہاں عقل کا دائرہ ختم ہورہا تھا۔ عقل اس کا پوری طرح ادراک نہیں کرسکتی، ان چیزوں کا ہمیں قرآن کریم نے سبق پڑھایا ہے، ان چیزوں کے بارے میں ہمیں معلومات فراہم کی ہیں۔

لہٰذا اسلامائیزیشن آف لاز کا سارا فلسفہ یہ ہے کہ ہم اپنی پوری زندگی کو اس کے تابع بنائیں۔

اسلام کے احکام میں لچک (Elasticity) موجود ہے

آخر میں ایک بات یہ عرض کردوں کہ جب اوپر کی بات سمجھ میں آگئی تو پھر دل میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ ہم چودہ سو سال پرانی زندگی کو کیسے لوٹائیں؟ چودہ سو سال پرانے اصولوں کو آج کی بیسویں اور اکیسویں صدی پر کیسے اپلائی کریں؟ اس لیے کہ ہماری ضروریات نوع بنوع ہیں، بدلتی رہتی ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ اسلامی علوم سے ناواقفیت کی وجہ سے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اسلام نے اپنے احکام کے تین حصے کیے ہیں:

ایک حصہ وہ ہے جس میں قرآن و حدیث کی نص قطعی موجود ہے، جس میں قیام قیامت تک آنے والے حالات کی وجہ سے کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ یہ اصول غیر متبدل ہیں۔ زمانہ کیسا ہی بدل جائے، لیکن اس میں تبدیلی نہیں آسکتی۔

دوسرا حصہ وہ ہے جس میں اجتہاد و استنباط کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اور اس میں اس درجہ کی نصوص قطعیہ نہیں ہیں جو زمانہ کے حال پر اپلائی کریں۔ اس میں اسلامی احکام کی لچک (Elasticity) خود موجود ہے۔

اور احکام کا تیسرا حصہ وہ ہے جس کے بارے میں قرآن و سنت خاموش ہیں۔ جن کے بارے میں کوئی ہدایت اور کوئی رہنمائی نہیں کی گئی۔ جن کے بارے میں قرآن و سنت نے کوئی حکم نہیں دیا۔ حکم کیوں نہیں دیا؟ اس لیے کہ اس کو ہماری عقل پر چھوڑ دیا ہے۔ اور اس کا اتنا وسیع دائرہ ہے کہ ہر دور میں انسان اپنی عقل اور تجربہ کو استعمال کرکے اس خالی میدان (Unoccupied Area) میں ترقی کرسکتا ہے۔ اور ہر دور کی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔ (جاری)


ہمارے واٹساپ چینل کو فالو کریں!

https://whatsapp.com/channel/0029VaKiFBWEawdubIxPza0l

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے