عقل کا دائرہ کار
ہمارے پاس اس کو روکنے کی کوئی دلیل نہیں ہے
ایک اور مثال یاد آگئی ہے، جیسا کہ ابھی میں نے عرض کیا تھا، جس وقت برطانیہ کی پارلیمنٹ میں ہم جنس پرستی (Homo Sexuality) کا بل تالیوں کی گونج میں پاس ہوا، اس بل کے پاس ہونے سے پہلے کافی مخالفت بھی ہوئی اور اس بل پر غور کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو اس مسئلے پر غور کرے کہ آیا یہ بل پاس ہونا چاہیے یا نہیں؟ اس کمیٹی کی رپورٹ شائع ہوئی ہے اور فریڈ مین (Friedman) کی مشہور کتاب ’’دی لیگل تھیوری‘‘ (The Legal Theory) میں اس رپورٹ کا خلاصہ دیا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ اس کمیٹی نے ساری رپورٹ لکھنے کے بعد لکھا ہے کہ:
’’اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ چیز اچھی نہیں لگتی۔ لیکن چونکہ ہم ایک مرتبہ یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ انسان کی پرائیویٹ زندگی میں قانون کو دخل انداز نہیں ہونا چاہیے؛ اس لیے اس اصول کی روشنی میں جب تک ہم سِن (Sin) اور کرائم (Crime) میں تفریق رکھیں گے۔ کہ سِن اور چیز ہے اور کرائم علاحدہ چیز ہے۔ اس وقت تک ہمارے پاس اس عمل کو روکنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ہاں! اگر سِن اور کرائم کو ایک تصور کرلیا جائے تو پھر بیشک اس بل کے خلاف رائے دی جاسکتی ہے۔ اس واسطے ہمارے پاس اس بل کو رد کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس لیے یہ بل پاس ہونا چاہیے۔‘‘
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ (Law) کو اسلامائز کیا جائے تو اس کے معنیٰ یہی ہیں کہ سیکولر نظام نے حصول علم کی جو دو بنیادیں، آنکھ، کان، ناک، زبان وغیرہ اور عقل اختیار کی ہوئی ہیں، اس سے آگے ایک اور قدم بڑھاکر وحی الٰہی کو بھی حصول علم اور رہنمائی کا ذریعہ قرار دے کر اس کو اپنا شعار بنائیں۔
اس حکم کی ریزن (Reason) میری سمجھ میں نہیں آتی
اور جب یہ بات ذہن میں آجائے کہ وحی الٰہی شروع ہی وہاں سے ہوتی ہے جہاں عقل کی پرواز ختم ہوجاتی ہے۔ تو پھر وحی الٰہی کے ذریعے قرآن و سنت میں جب کوئی حکم آجائے۔ اس کے بعد اس بناپر اس حکم کو رد کرنا کہ صاحب اس حکم کا ریزن (Reason) میری سمجھ میں نہیں آتا احمقانہ فعل ہوگا۔ اس واسطے کہ وحی کا حکم آیا ہی اس جگہ پر ہے جہاں ریزن کام نہیں دے رہی تھی۔ اگر ریزن کام دے چکی ہوتی تو پھر وحی کے آنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اگر اس حکم کے پیچھے جو حکمتیں ہیں، اگر وہ ساری حکمتیں تمہاری عقل ادراک کرسکتی تھی تو پھر اللہ کو وحی کے ذریعے اس کے حکم دینے کی چنداں حاجت نہیں تھی۔ (جاری)
ہمارے واٹساپ چینل کو فالو کریں!