عقل کا دائرہ کار -قسط ۳- حواس خمسہ کا دائرہ کار

عقل کا دائرہ کار

قسط: ۳
(ماخوذ از اصلاحی خطبات، مفتی تقی عثمانی مد ظلہ العالی)
(جمع و ترتیب: محمد اطہر قاسمی)

حواس خمسہ کا دائرہ کار

مثال کے طور پر انسان کو سب سے پہلے جو ذرائع علم عطا ہوئے وہ اس کے حواس خمسہ ہیں؛ آنکھ، کان، ناک اور زبان وغیرہ۔ آنکھ کے ذریعے دیکھ کر بہت سی چیزوں کا علم حاصل ہوتا ہے۔ زبان کے ذریعے چکھ کر علم حاصل ہوتا ہے۔ ناک کے ذریعے سونگھ کر علم حاصل ہوتا ہے۔ ہاتھ کے ذریعے چھوکر حاصل ہوتا ہے۔ لیکن علم کے یہ پانچ ذرائع جو مشاہدے کی سرحد میں آتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کا ایک دائرہ کار ہے۔ اس دائرہ کار سے باہر وہ ذریعہ کام نہیں کرتا۔ آنکھ دیکھ سکتی ہے لیکن سن نہیں سکتی، کان سن سکتا ہے لیکن دیکھ نہیں سکتا۔ ناک سونگھ سکتی ہے لیکن دیکھ نہیں سکتی۔

اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ میں آنکھ تو بند کرلوں اور کان سے دیکھنا شروع کردوں تو اس شخص کو ساری دنیا احمق کہے گی۔ اس لیے کہ کان اس کام کے لیے نہیں بنایا گیا۔ اگر کوئی شخص اس سے کہے کہ تمہارا کان نہیں دیکھ سکتا؛ اس لیے کان سے دیکھنے کی تمہاری کوشش بالکل بیکار ہے۔ جواب میں وہ شخص کہے کہ اگر کان دیکھ نہیں سکتا تو وہ بیکار چیز ہے۔ تو اس کو ساری دنیا احمق کہے گی۔ اس لیے کہ وہ اتنی بات بھی نہیں جانتا کہ کان کا ایک دائرہ کار ہے، اس حد تک وہ کام کرے گا۔ اس سے اگر آنکھ کا کام لینا چاہو گے تو وہ نہیں کرے گا۔

دوسرا ذریعہ علم ’’عقل‘‘

پھر جس طرح ہمیں اللہ تعالیٰ نے علم کے حصول کے لیے یہ پانچ حواس عطا فرمائے ہیں۔ ایک مرحلہ پر جاکر ان پانچوں حواس کی پرواز ختم ہوجاتی ہے۔ اس مرحلہ پر نہ تو آنکھ کام دیتی ہے، نہ کان کام دیتا ہے، نہ زبان کام دیتی ہے، نہ ہاتھ کام دیتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں اشیاء براہ راست مشاہدہ کی گرفت میں نہیں آتیں۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اور آپ کو علم کا ایک اور ذریعہ عطا فرمایا ہے اور وہ ہے ’’عقل‘‘۔ جہاں پر حواس خمسہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں وہاں پر ’’عقل‘‘ کام آتی ہے۔

مثلاً میرے سامنے یہ میز رکھی ہے، میں آنکھ سے دیکھ کر یہ بتا سکتا ہوں کہ اس کا رنگ کیا ہے؟ ہاتھ سے چھوکر معلوم کرسکتا ہوں کہ یہ سخت لکڑی کی ہے اور اس پر فارمیکا لگا ہوا ہے۔ لیکن اس بات کا علم کہ یہ میز وجود میں کیسے آئی؟ یہ بات میں نہ تو آنکھ سے دیکھ کر بتا سکتا ہوں، نہ کان سے سن کر اور نہ ہاتھ سے چھوکر بتا سکتا ہوں۔ اس لیے کہ اس کے بننے کا عمل میرے سامنے نہیں ہوا۔ اس موقع پر میری عقل میری رہنمائی کرتی ہے کہ یہ چیز جو اتنی صاف ستھری بنی ہوئی ہے، خود بخود وجود میں نہیں آسکتی۔ اس کو کسی بنانے والے نے بنایا ہے۔ اور وہ بنانے والا اچھا تجربہ کار ماہر بڑھئی (Carpenter) ہے، جس نے اس کو خوبصورت شکل میں بنایا ہے۔ لہٰذا یہ بات کہ اس کو کسی کارپینٹر نے بنایا ہے مجھے میری عقل نے بتائی۔ تو جس جگہ میرے حواس خمسہ نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا، وہاں میری عقل کام آئی اور اس نے میری رہنمائی کرکے ایک دوسرا علم عطا کیا۔ (جاری)


ہمارے واٹساپ چینل کو فالو کریں!

https://whatsapp.com/channel/0029VaKiFBWEawdubIxPza0l

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے