عقل کا دائرہ کار
عقل دھوکہ دینے والی ہے
آج کل عقل پرستی (Rationalism) کا بڑا زور ہے، اور کہا جاتا ہے کہ ہرچیز کو عقل کی میزان پر رکھ کر اور تول کر اختیار کریں گے؛ لیکن عقل کے پاس کوئی ایسا لگا بندھا ضابطہ (Formula) اور کوئی لگا بندھا اصول (Principle) نہیں ہے، جو عالمی حقیقت (Universal Truth) رکھتا ہو۔ جس کو ساری دنیا کے انسان تسلیم کرلیں اور اس کے ذریعے وہ اپنے خیر و شر اور اچھائی برائی کا معیار تجویز کرسکیں۔ کون سی چیز اچھی ہے؟ کون سی چیز بری ہے؟ کون سی چیز اختیار کرنی چاہیے؟ کون سی چیز اختیار نہیں کرنی چاہیے؟ یہ فیصلہ جب ہم عقل کے حوالے کرتے ہیں تو آپ تاریخ اٹھاکر دیکھ جائیے، اس میں آپ کو یہ نظر آئے گا کہ اس عقل نے انسان کو اتنے دھوکے دیے ہیں جس کا کوئی شمار اور حدّ و حساب ممکن نہیں۔ اگر عقل کو اس طرح آزاد چھوڑ دیا تو انسان کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ اس کے لیے میں تاریخ سے چند مثالیں پیش کرتا ہوں:
بہن سے نکاح خلاف عقل نہیں
آج سے تقریباً آٹھ سو سال پہلے عالمِ اسلام میں ایک فرقہ پیدا ہوا تھا، جس کو ’’باطنی فرقہ‘‘ اور ’’قرامطہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس فرقے کا ایک مشہور لیڈر گزرا ہے جس کا نام عبید اللہ بن حسن قیروانی ہے۔ اس نے اپنے پیروکاروں کے نام ایک خط لکھا ہے، وہ خط بڑا دلچسپ ہے۔ جس میں اس نے اپنے پیروکاروں کو زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی ہیں۔ اس میں وہ لکھتا ہے:
’’میری سمجھ میں یہ بے عقلی کی بات نہیں آتی ہے کہ لوگوں کے پاس اپنے گھر میں ایک بڑی خوبصورت، سلیقہ شعار لڑکی بہن کی شکل میں موجود ہے اور بھائی کے مزاج کو بھی سمجھتی ہے۔ اس کی نفسیات سے بھی واقف ہے۔ لیکن یہ بے عقل انسان اس بہن کا ہاتھ اجنبی شخص کو پکڑا دیتا ہے۔ جس کے بارے میں یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ نباہ صحیح ہوسکے گا یا نہیں؟ وہ مزاج سے واقف ہے یا نہیں؟ اور خود اپنے لیے بعض اوقات ایک ایسی لڑکی لے آتے ہیں جو حسن و جمال کے اعتبار سے بھی، سلیقہ شعاری کے اعتبار سے بھی، مزاج شناسی کے اعتبار سے بھی اس بہن کے ہم پلہ نہیں ہوتی۔
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اس بے عقلی کا کیا جواز ہے کہ اپنے گھر کی دولت تو دوسرے کے ہاتھ دے دے۔ اور اپنے پاس ایک ایسی چیز لے آئے جو اس کو پوری راحت و آرام نہ دے۔ یہ بے عقلی ہے۔ عقل کے خلاف ہے۔ میں اپنے پیرووں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس بے عقلی سے اجتناب کریں اور اپنے گھر کی دولت کو گھر ہی میں رکھیں۔‘‘
(الفرق بین الفرق للبغدادی: ص ۲۹۷، و بیان مذاہب الباطنیہ للدیلمی: ص ۸۱) (جاری)
ہمارے واٹساپ چینل کو فالو کریں!