عقل کا دائرہ کار
بہن اور جنسی تسکین
اور دوسری جگہ عبید اللہ بن حسن قیروانی عقل کی بنیاد پر اپنے پیرووں کو یہ پیغام دے رہا ہے، وہ کہتا ہے:
’’یہ کیا وجہ ہے کہ جب ایک بہن اپنے بھائی کے لیے کھانا پکا سکتی ہے، اس کی بھوک دور کرسکتی ہے، اس کی راحت کے لیے اس کے کپڑے سنوار سکتی ہے، اس کا بستر درست کر سکتی ہے، تو اس کی جنسی تسکین کا سامان کیوں نہیں کرسکتی؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ تو عقل کے خلاف ہے۔‘‘
(الفرق بین الفرق للبغدادی، ص۲۹۷، و بیان مذاہب الباطنیہ للدیلمی، ص۸۱)
عقلی جواب ناممکن ہے
آپ اس کی بات پر جتنی چاہیں لعنت بھیجیں، لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ خالص عقل کی بنیاد پر جو وحی الٰہی کی رہنمائی سے آزاد ہو۔ جس کو وحی الٰہی کی روشنی میسر نہ ہو۔ اس عقل کی بنیاد پر آپ اس کے استدلال کا جواب دیں۔ خالص عقل کی بنیاد پر قیامت تک اس کے اس استدلال کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔
عقلی اعتبار سے بداخلاقی نہیں
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ یہ تو بڑی بداخلاقی کی بات ہے، بڑی گھناؤنی بات ہے تو اس کا جواب موجود ہے کہ یہ بداخلاقی اور گھناؤنا پن، یہ سب ماحول کے پیدا کردہ تصورات ہیں۔ آپ ایک ایسے ماحول میں پیدا ہوئے ہیں جہاں اس بات کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے آپ اس کو معیوب سمجھتے ہیں۔ ورنہ عقلی اعتبار سے کوئی عیب نہیں۔
نسب کا تحفظ کوئی عقلی اصول نہیں
اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ اس سے حسب و نسب کا سلسلہ خراب ہوجاتا ہے، تو اس کا جواب موجود ہے کہ نسبوں کا سلسلہ خراب ہوجاتا ہے تو ہونے دو۔ اس میں کیا برائی ہے؟ نسب کا تحفظ کون سا ایسا عقلی اصول ہے کہ اس کی وجہ سے نسب کا تحفظ ضرور کیا جائے۔
یہ بھی ہیومن ارج (Human Urge) کا حصہ ہے
اگر آپ اس استدلال کے جواب میں یہ کہیں کہ اس سے طبی طور پر نقصانات ہوتے ہیں؛ اس لیے کہ اب یہ تصورات سامنے آئے ہیں کہ استلذاذ بالاقارب (Incest) سے طبی نقصانات بھی ہوتے ہیں۔
لیکن آپ کو معلوم ہے کہ آج مغربی دنیا میں اس موضوع پر کتابیں آرہی ہیں کہ استلذاذ بالاقارب (Incest) انسان کی فطری خواہش (Human Urge) کا ایک حصہ ہے۔ اور اس کے جو طبی نقصانات بیان کیے جاتے ہیں، وہ صحیح نہیں ہیں۔ وہی نعرہ جو آج سے آٹھ سو سال پہلے عبید اللہ بن حسن قیروانی نے لگایا تھا، اس کی نہ صرف صدائے بازگشت بلکہ آج مغربی ملکوں میں اس پر کسی طرح عمل ہورہا ہے۔ (جاری)
ہمارے واٹساپ چینل کو فالو کریں!