ہمارا مسلکی ذہن

ہمارا مسلکی ذہن

محمد فہیم الدین بجنوری
سابق استاذ دارالعلوم دیوبند
28 ذی الحجہ 1445ھ 5 جولائی 2024ء

ہم تو خراسان کی ضعیفہ کے ایمانِ مجمل پر زندگی بسر کر جاتے، کلمہ گوئی پر قناعت بھی کرتے اور ہر کلمہ گو کو صراطِ مستقیم کا نقیب گردانتے، کس درجہ عافیت تھی توحید ورسالت کے اجمال میں! اور کتنا آسان تھا ہر مدعی اسلام کا خیر مقدم! مسلک کے مہنگے سودے میں ہاتھ ڈال کر ہم نے خسارے بھی اٹھائے اور نکو بھی قرار پائے، کیا ہی ثمر آور ہے مداہنت! اور کیا ہی عافیت مآب ہے منافقت!!!

ہمیں خالص، سچے اور بے میل مسلک کی وارفتگی کا درس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے گئے ہیں، نسبتِ اسلام کی حامل متنوع راہوں سے متعلق انتباہات انھوں نے جاری کیے ہیں، راہ راست کی نشانیاں انھوں نے نمایاں کیں، ہم مجرد کلمہ گوئی کے ساتھ حاضر خدمتِ نبوی ہوے تھے، بے شک ہمارا ایمان قبول کیا گیا؛ مگر اس ایمانی تمہید کے بعد انھوں نے فرقوں کی داستان خود چھیڑی۔

ایک مجلس میں فرمانے لگے کہ میری امت فرقہ بندی میں یہود کو مات دے گی، فرقے ہی فرقے ہوں گے؛ لیکن وہ سب جہنمی ہیں، دائمی یا عارضی، برحق فقط ایک جماعت ہوگی، جماعت اہل سنت والجماعت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نازک مضمون کو مکمل کرتے ہوے فرمایا کہ سنت سے مراد میں ہوں اور جماعت سے میرے صحابہ!

ایک دیگر مجلس میں ہمیں پکڑ کر بیٹھ گئے، وہ اُمی یعنی لکھنے کی احتیاج سے ماوراء تھے؛ لیکن اپنے دستِ اقدس سے زمین پر لائنیں بنائیں، ایک لائن سیدھی تھی؛ جب کہ دائیں بائیں لائنیں کج تھیں، آپ نے فرمایا کہ یہ معتدل، سیدھی، راست، واضح اور روشن راہ ہی اسلام ہے، باقی راستوں پر اسلام کے بورڈ جعلی ہیں، شیطان نے چسپاں کیے ہیں۔

وہ فرما گئے ہیں کہ میدان حشر میں اہل بدعت سے مواجہہ ہوگا، ان کے عاشقانہ ظاہری نعرے دیکھ کر آپ کی طبیعت متاثر ہوگی؛ لیکن جب ان کا خرابۂ بدعت ملاحظے سے گزارا جائے گا تو آپ ان سے لاتعلقی کا اعلان فرمائیں گے اور راندۂ درگاہ فرمادیں گے، یہ لوگ درسِ مسلک کی دفعہ ’’ما أنا علیہ‘‘ سے خارج ہوے، یعنی بدعتی فرقہ مذکورہ شرط کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے ذیلی راستوں پر خیمہ زن ہے اور اسی کو شاہ راہ اسلام سمجھ رہا ہے۔

صحابہ کو گالی دینے والے تو خود ہی متوازی اسلام رکھتے ہیں، ان کے لیے فرقے کا لفظ تعبیر ناقص ہے؛ لیکن صحابہ کے ساتھ چلمن والا برتاؤ کرنے والے بحث کا موضوع ہیں، صحابہ کو معیار تسلیم نہ کرنا، تبرا ہی کی ایک قسم ہیں، اگر آپ کو بیس رکعات تراویح بدعتِ عمری اور جمعے کی اذانِ ثانی بدعتِ عثمانی معلوم ہوتی ہے تو آپ قانونِ مسلک کی دفعہ ثانی: ’’ما علیہ اصحابی‘‘ کے تحت مرکزی راہ سے بھٹک کر ضمنی پگڈنڈیوں پر کھڑے ہیں۔

وہ دل ربا قلم بھی اسی مذکورہ مسلکی دفعہ کی زد میں آتا ہے، جس کی دل ربائی صحابہ کے کردار کو تراش خراش کا موضوع بناتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہزادوں کے درمیان پائے گئے نزاع میں فیصل کی حیثیت دکھانے والے تمام کم ظرف اسی دفعہ کی ضرب میں لپیٹے جائیں گے اور ان کی راہ جادۂ حق کو للکارنے والی بغلی تنگ نائے قرار دی جائے گی۔

ہم مسلکی ذہن میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہیں، ان کے مسلکی انتباہات ہمیں چوکنا اور بیدار رکھتے ہیں، ہم ہر رجحان کو ان کے منظور کردہ معیار پر جانچتے رہیں گے، سنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین کو ہلکے میں لینے والوں کی روسیاہی اجاگر کرتے رہیں گے، ہم ان کے عطاء کردہ روشن راستے کو کیل کانٹوں سے پاک کرنے کی قواعد جاری رکھیں گے، دارالعلوم دیوبند مسلک کا خادم ہے اور مسلکی چہرے کو نمایاں رکھنا اس کے لیے آیۂ حق اور مایۂ عز وشرف ہے۔ (ختم شد)


ہمارے واٹساپ چینل کو فالو کریں!

https://whatsapp.com/channel/0029VaKiFBWEawdubIxPza0l

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے