عقل کا دائرہ کار -قسط ۱۰- آزادیٔ فکر کے علم بردار ادارے کا حال

عقل کا دائرہ کار

قسط: ۱۰
(ماخوذ از اصلاحی خطبات، مفتی تقی عثمانی مد ظلہ العالی)
(جمع و ترتیب: محمد اطہر قاسمی)

آزادیٔ فکر کے علم بردار ادارے کا حال

ایک معروف بین الاقوامی ادارہ ہے، جس کا نام ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘‘ ہے۔ اس کا ہیڈ آفس پیرس میں ہے۔ آج سے تقریباً ایک ماہ پہلے اس کے ایک ریسرچ اسکالر سروے کرنے کے لیے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ خدا جانے کیوں وہ میرے پاس بھی انٹرویو کرنے کے لیے آگئے، اور انہوں نے آکر مجھ سے گفتگو شروع کی کہ ہمارا مقصد آزادی فکر اور حریت فکر کے لیے کام کرنا ہے۔ بہت سے لوگ آزادی فکر کی وجہ سے جیلوں اور قیدوں میں بند ہیں۔ ان کو نکالنا چاہتے ہیں۔ اور یہ ایک ایسا غیر متنازع موضوع ہے جس میں کسی کو اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔ مجھے اس لیے پاکستان بھیجا گیا کہ میں اس موضوع پر مختلف طبقوں کے خیالات معلوم کروں۔ میں نے سنا ہے کہ آپ کا بھی مختلف اہل دانش سے تعلق ہے۔ اس لیے میں آپ سے بھی کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں۔

آج کل کا سروے

میں نے ان سے پوچھا کہ آپ یہ سروے کس مقصد سے کرنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے مختلف حلقوں میں اس سلسلے میں کیا رائے پائی جاتی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کراچی کب تشریف لائے؟ جواب دیا کہ آج صبح پہنچا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ واپس کب تشریف لے جائیں گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ کل صبح میں اسلام آباد جارہا ہوں۔ (رات کے وقت یہ ملاقات ہورہی تھی۔) میں نے پوچھا کہ اسلام آباد میں کتنے روز قیام رہے گا؟ فرمایا کہ ایک دن اسلام آباد میں رہوں گا۔

میں نے ان سے کہا کہ پہلے تو آپ مجھے یہ بتائیں آپ پاکستان کے مختلف حلقوں کے خیالات کا سروے کرنے جارہے ہیں اور اس کے بعد آپ رپورٹ تیار کرکے پیش کریں گے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ان دو تین شہروں میں دو تین دن گزارنا آپ کے لیے کافی ہوگا؟ کہنے لگے: کہ ظاہر ہے کہ تین دن میں سب کے خیالات تو معلوم نہیں ہوسکتے۔ لیکن میں مختلف حلقہ ہائے فکر سے مل رہا ہوں۔ کچھ لوگوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ اور اسی سلسلے میں آپ کے پاس بھی آیا ہوں۔ آپ بھی میری کچھ رہنمائی کریں۔

میں نے ان سے پوچھا کہ آج آپ نے کراچی میں کتنے لوگوں سے ملاقات کی؟ کہنے لگے میں نے پانچ آدمیوں سے ملاقات کرلی ہے، اور چھٹے آپ ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ ان چھ آدمیوں کے خیالات معلوم کرکے ایک رپورٹ تیار کردیں گے کہ کراچی والوں کے خیالات یہ ہیں۔ معاف کیجیے مجھے آپ کے اس سروے کی سنجیدگی پر شبہ ہے۔ اس لیے کہ تحقیقی ریسرچ اور سروے کا کوئی کام اس طرح نہیں ہوا کرتا۔ اس لیے میں آپ کے کسی سوال کا جواب دینے سے معذور ہوں۔

اس پر وہ معذرت کرنے لگے کہ میرے پاس وقت کم تھا۔ اس لیے صرف چند حضرات سے مل سکا ہوں۔ احقر نے عرض کیا کہ وقت کی کمی کی صورت میں سروے کا یہ کام ذمہ لینا کیا ضروری تھا؟ پھر انہوں نے اصرار شروع کردیا کہ اگرچہ آپ کا اعتراض حق بجانب ہے؛ لیکن میرے چند سوالات کا جواب تو آپ دے ہی دیں۔ احقر نے پھر معذرت کی اور عرض کیا کہ میں اس غیر سنجیدہ اور ناتمام سروے میں کسی تعاون سے معذور ہوں۔ البتہ اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ سے اس ادارے کی بنیادی فکر کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ کہنے لگے کہ ’’دراصل تو میں آپ سے سوال کرنے کے لیے آیا تھا؛ لیکن اگر آپ جواب نہیں دینا چاہتے تو بیشک آپ ہمارے ادارے کے بارے میں جو سوال کرنا چاہیں کرلیں۔‘‘ (جاری)


ہمارے واٹساپ چینل کو فالو کریں!

https://whatsapp.com/channel/0029VaKiFBWEawdubIxPza0l

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے