معاشیات قسط 14، مختلف نظامہائے معیشت میں دولت کی پیدائش اور تقسیم

معاشیات قسط: 14 (آخری قسط)

از قلم: محمد اطہر

اس قسط میں آپ پڑھیں گے:

مختلف نظامہائے معیشت میں دولت کی پیدائش اور تقسیم

(۱)پیدائش دولت
(۲)تقسیم دولت
(۳)مبادلۂ دولت
(۴)صرف دولت
پیدائش دولت اور تقسیم دولت کا سرمایہ دارانہ نظریہ
(۱)زمین
(۲)محنت
(۳)سرمایہ
(۴)آجر
پیدائش دولت اور تقسیم دولت کا اشتراکی نظریہ
پیدائش دولت اور تقسیم دولت کا اسلامی نظریہ
زمین اور سرمایہ کے درمیان فرق
پہلا فرق
دوسرا فرق
تیسرا فرق
پہلا بنیادی فرق
دوسرا بنیادی فرق

مختلف نظامہائے معیشت میں دولت کی پیدائش اور تقسیم

مختلف نظامہائے معیشت میں دولت کی پیدائش اور تقسیم

اب تک جو بحث کی گئی وہ معیشت کے بارے میں بنیادی نظریاتی بحث تھی۔ اب ہم مطالعہ کریں گے کہ مختلف نظامہائے معیشت کے جو بنیادی نظریات پیچھے بیان کئے گئے ان پر عمل کرنے کے لئے ہر نظام معیشت، کیا طریقۂ کار اختیار کرتا ہے؟ اس طریق کار کو عموماً علم معاشیات میں چار عنوانات کے تحت بیان کیا جاتا ہے۔

(۱) پیدائش دولت (Production of Wealth)

اس عنوان کے تحت ان مسائل سے بحث ہوتی ہے جو دولت کی پیداوار سے متعلق ہیں۔ یعنی یہ بتایا جاتا ہے کہ ہر نطام معیشت کے تحت پیداوار حاصل کرنے کے لئے کیا طریقے اختیار کئے جاتے ہیں؟ اس میں افراد، اداروں اور حکومت وغیرہ کا کیا کردار ہوتا ہے۔

(۲) تقسیم دولت (Distribution of Wealth)

اس عنوان کے تحت اس بات سے بحث ہوتی ہے کہ حاصل شدہ پیداوار کو اس کے مستحقین کے درمیان کس طریق کار کے تحت تقسیم کیا جائے۔

(۳) مبادلۂ دولت (Exchange of Wealth)

اس عنوان کے تحت ان طریقوں سے بحث کی جاتی ہے جن طریقوں کو لوگ ایک چیز کے بدلے دوسری چیز حاصل کرنے کے لئے اختیار کرتے ہیں۔

(۴) صرف دولت (Consumption of Wealth)

اس عنوان کے تحت حاصل شدہ پیداوار یا دولت کو خرچ کرنے سے متعلق مسائل سے بحث ہوتی ہے۔

اشتراکیت، سرمایہ داریت اور اسلام کے تقابلی مطالعے کے لئے، پیدائش دولت اور تقسیم دولت کے بارے میں جاننا ضروری ہے؛ اس لئے صرف انہی دونوں کا یہاں ہم مطالعہ کریں گے۔

پیدائش دولت اور تقسیم دولت کا سرمایہ دارانہ نظریہ

سرمایہ دارنہ نظام میں یہ بات ایک مسلمہ کے طور پر طے شدہ ہے کہ کسی بھی چیز کی پیداوار میں چار عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ جن کو انگریزی میں Factors of Production کہتے ہیں۔

(۱) زمین (Land)

اس سے مراد قدرتی عامل پیدائش ہے، جو براہ راست اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے۔ اور اس کے پیدا کرنے میں کسی انسانی عمل کا کوئی دخل نہیں۔

(۲) محنت (Labor)

اس سے مراد وہ انسانی عمل ہے، جس کے ذریعے کوئی نئی پیداوار وجود میں آتی ہے۔

(۳) سرمایہ (Capital)

اس کی تعریف سرمایہ دارانہ نظام میں یہ کی گئی ہے کہ سرمایہ ’’پیدا کردہ عامل پیدائش کا نام ہے۔‘‘ اس تعریف کو ذرا وضاحت کے ساتھ یوں کہا جا سکتا ہے کہ سرمایہ وہ عامل پیداوار ہے جو قدرتی نہ ہو، بلکہ کسی عمل پیدائش کے نتیجے میں پیدا ہوا ہو اور اس کے بعد کسی اگلے عمل پیدائش میں استعمال ہورہا ہو۔

(۴) آجر (Entrepreneur)

اس سے مراد وہ شخص یا ادارہ ہے جو کسی عمل پیدائش کا محرک ہوتا ہے، اور مذکورہ بالا تینوں عوامل پیداوار کو جمع کرکے انہیں پیدائش کے عمل میں استعمال کرتا ہے اور نفع و نقصان کا خطرہ مول لیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظریہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں پیدائش کا عمل ان چار عوامل کی مشترکہ کارروائی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگرچہ بعض اوقات یہ عوامل ایک ہی شخص کی ذات میں بھی جمع ہوجاتے ہیں، یعنی وہی زمین فراہم کرتا ہے، وہی محنت کرتا ہے، اور وہی سرمایہ فراہم کرتا ہے۔ لیکن بڑے پیمانے کی صنعتوں میں عموماً یہ چاروں عوامل الگ الگ شخصیتوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اور چونکہ پیداوار ان کے اشتراک سے عمل مییں آتی ہے؛ لہٰذا حاصل شدہ پیداوار کے مستحق بھی یہی ہیں۔

چنانچہ تقسیم دولت کا سرمایہ دارانہ نظریہ یہ ہے کہ زمین کو لگان یا کرایہ (Rent) ملنا چاہیے، محنت کو اجرت (Wages)، سرمایہ کو سود (Interest) اور آجر کو نفع (Profit)۔ ان میں سے کرایہ، اجرت اور سود پہلے سے متعین ہوتے ہیں اور ان کا تعین طلب و رسد کی بنیاد پر ہوتا ہے، جس کی تشریح پیچھے گذر چکی۔ البتہ نفع، کاروبار شروع کرتے وقت متعین طور سے معلوم نہیں ہوتا، بلکہ اس کا تعین کاروبار کے نتیجہ خیز ہونے کے بعد ہوتا ہے۔ یعنی پہلے تین کے درمیان دولت تقسیم کرنے کے بعد جو کچھ بچے وہ آجر کا منافع ہے۔

پیدائش دولت اور تقسیم دولت کا اشتراکی نظریہ

اشتراکیت کا کہنا ہے کہ حقیقتاً عوامل پیداوار چار نہیں بلکہ صرف دو ہیں۔ ایک زمین، دوسرا محنت۔ انہی دونوں کے اشتراک سے پیداوار وجود میں آتی ہے۔ سرمایہ کو اس لئے عامل پیداوار نہیں کہہ سکتے کہ وہ خود کسی عمل پیدائش کا نتیجہ ہوتا ہے۔ آجر کو اس لئے مستقل عامل پیداوار قرار دینے کی ضرورت نہیں کہ اس کا عمل محنت میں داخل ہوسکتا ہے۔ اور خطرہ مول لینے کی صفت کسی شخص یا پرائیویٹ ادارے میں تسلیم کرنے کی اس لئے ضرورت نہیں کہ یہ کام اشتراکی نظام میں حکومت کرتی ہے۔ افراد کو کاروباری مہم جوئی کی نہ اجازت ہے اور نہ ضرورت۔

چونکہ اشتراکی نظام میں حقیقی عوامل پیداوار صرف زمین اور محنت ہیں۔ زمین کسی کی شخصی ملکیت نہیں ہوتی؛ اس لئے اسے الگ سے معاوضہ دینے کی ضرورت نہیں۔ لہٰذا تقسیم دولت کی صرف ایک مد رہ جاتی ہے اور وہ ہے اجرت، جس کا تعین سرکاری منصوبہ بندی کے تحت ہوتا ہے۔ کارل مارکس کا مشہور نظریہ ہے کہ کسی چیز کی قدر میں اضافہ صرف محنت سے ہوتا ہے؛ اس لئے اجرت کا مستحق صرف محنت ہے۔ سرمایہ کا سود، زمین کی اجرت اور آجر کا نفع ایک فالتو چیز ہے جسے مصنوعی طور پر پیدا کیا گیا ہے۔

پیدائش دولت اور تقسیم دولت کا اسلامی نظریہ

قرآن و سنت میں پیدائش دولت اور تقسیم دولت پر اس انداز سے بحث نہیں کی گئی ہے جس طرح کسی معاشیات کی کتاب میں کی جاتی ہے۔ لیکن معیشت کے مختلف ابواب میں قرآن و سنت نے جو احکام عطا فرمائے ہیں ان پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام میں سرمایہ (Capital) اور آجر کی تفریق کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کاروبار کے نفع و نقصان کا خطرہ آجر پر ڈالا گیا ہے۔ اور سرمایہ کو معین شرح سے سود دیا جاتا ہے۔ اسلام میں چونکہ سود حرام ہے؛ اس لئے نفع و نقصان کا خطرہ خود سرمائے پر عائد ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر وہ شخص جو کسی کاروبار میں سرمایہ کاری کر رہا ہو اسے نفع کی امید کے ساتھ نقصان کا خطرہ بھی مول لینا پڑے گا۔ اس طرح یا تو یوں کہا جائے کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے اگرچہ سرمایہ اور آجر الگ الگ عامل پیدائش ہیں، لیکن سرمایہ فراہم کرنے والا ہر فرد چونکہ خطرہ بھی مول لیتا ہے؛ اس لئے وہ جزوی یا کلی طور پر آجر بھی ہے، اور تقسیم دولت میں سرمایہ اور آجر دونوں کا صلہ منافع ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ سرمایہ اور آجر دو الگ الگ عامل پیداوار نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک ہی عامل ہے اور تقسیم دولت میں اس کو منافع ملتا ہے۔ بہر صورت جس طرح زمین کو معین کرایہ اور محنت کو معین اجرت دی جاتی ہے اس طرح سرمایہ کو معین سود نہیں دیا جاسکتا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ کو زمین پر قیاس کیا جاتا ہے کہ جس طرح زمین فراہم کرکے ایک شخص معین کرایہ وصول کرسکتا ہے اسی طرح سرمایہ فراہم کرکے معین سود بھی وصول کرسکتا ہے۔ لیکن اسلامی احکام کی رو سے یہ قیاس درست نہیں ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ زمین اور سرمایہ میں مندرجہ ذیل تین وجوہ سے زبردست فرق پایا جاتا ہے:

زمین اور سرمایہ کے درمیان فرق

پہلا فرق

زمین بذات خود ایک قابل انتفاع چیز ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے اسے خرچ کرنا نہیں پڑتا، بلکہ اس کا وجود برقرار رکھتے ہوئے اسے عامل پیدائش کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اور اس سے دوسرے فوائد بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا اس کا کرایہ درحقیقت ان فوائد کا معاوضہ ہے جو زمین براہ راست دے رہی ہے۔ اس کے برعکس سرمایہ یعنی روپیہ ایسی چیز ہے جو بذات خود قابل انتفاع نہیں ہے۔ وہ اس وقت تک انسان کو فائدہ نہیں پہنچاتا ہے جب تک اسے خرچ کرکے اس کے بدلے کوئی قابل انتفاع چیز خرید نہ لی جائے۔ لہٰذا جس نے کسی کو رپیہ فراہم کیا اس نے کوئی ایسی چیز فراہم نہیں کی جو براہ راست قابل انتفاع ہو، لہٰذا اس پر کرایہ وصول کرنے کا سوال ہی نہیں۔ کیونکہ کرایہ اس چیز کا ہوتا ہے، جس سے اس کا وجود برقرار رکھتے ہوئے فائدہ اٹھایا جائے۔

دوسرا فرق

زمین، مشینری، آلات وغیر ہ ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے استعمال سے ان کی قدر میں کمی ہوتی ہے، اسی لئے ان چیزوں کو جتنا زیادہ استعمال کیا جائے ان کی قدر اتنی ہی گھٹتی جاتی ہے۔ لہٰذا ان چیزوں کا جو کرایہ وصول کیا جاتا ہے اس میں قدر کے نقصان کی تلافی بھی شامل ہوتی ہے۔ اس کے بر خلاف روپیہ ایسی چیز ہے کہ محض استعمال سے اس کی قدر میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔

تیسرا فرق

اگر کوئی شخص زمین، مشینری یا سواری کرایہ پر لیتا ہے تو یہ چیزیں اس کے ضمان (Risk) میں نہیں ہوتیں، بلکہ اصل مالک کے ضمان میں رہتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ چیزیں کرایہ دار کی کسی غفلت یا زیادتی کے بغیر کسی سماوی آفت کے نتیجے میں تباہ ہوجائیں یا چوری ہوجائیں تو نقصان کرایہ دار کا نہیں، بلکہ اصل مالک کا ہوگا اور چونکہ اصل مالک ان کی تباہی کا خطرہ برداشت کر رہا ہے اور کرایہ دار کو اس خطرے سے آزاد کرکے اپنی ملکیت کے استعمال کا حق دے رہا ہے۔ اس لئے وہ ایک معین کرایہ کا بجا طور پر حقدار ہے۔

اس کے برعکس جو شخص کسی کو روپیہ قرض دے رہا ہے وہ روپیہ اس کے ضمان میں نہیں رہتا، بلکہ قرض دار کے ضمان میں چلا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ قرض دار کے قبضے میں جانے کے بعد اگر وہ روپیہ کسی سماوی آفت سے تباہ ہوجائے یا چوری ہوجائے تو نقصان قرض دینے والے کا نہیں قرض لینے والے کا ہے۔ یعنی قرض دار شخص اس صورت میں بھی اتنا روپیہ قرض خواہ کو لوٹانے کا ذمہ دار اور پابند ہے اور چونکہ قرض دینے والے نے قرض دے کر اسے اس روپیہ کا کوئی خطرہ مول نہیں لیا اس لئے وہ اس پر کسی معاوضے کا حقدار نہیں۔

اس تشریح کی روشنی میں تقسیم دولت کے اسلامی اصول اور سرمایہ دارانہ اصول کے درمیان دو بنیادی فرق ظاہر ہوتے ہیں:

پہلا بنیادی فرق

 پہلا بنیادی فرق یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ کو معین شرح سے سود دیا جاتا ہے، جبکہ اسلام میں سرمایہ کا حق منافع ہے، جو اسے اسی وقت ملے گا جب وہ نقصان کا خطرہ بھی برداشت کرے گا۔ یعنی کاروبار کے نفع و نقصان دونوں میں شریک ہوگا جس کا طریقہ شرکت یا مضاربت ہے۔

دوسرا بنیادی فرق

اور دوسرا بنیادی فرق یہ ہے کی سرمایہ داری ہو یا اشتراکیت، دونوں نظاموں میں دولت کا استحقاق صرف ان عاملین پیدائنش کی حد تک محدود رکھا گیا ہے جنہوں نے عمل پیدائش میں ظاہری طور پر براہ راست حصہ لیا۔ لیکن اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر چیز پر حقیقی ملکیت اللہ تعالیٰ کی ہے، اور ہر چیز کی پیدائش کا اصل کارنامہ اللہ تعالیٰ ہی انجام دیتے ہیں۔ جن کی توفیق کے بغیر کوئی عامل پیدائش ایک ذرہ بھی وجود میں نہیں لا سکتا۔ لہٰذا کوئی بھی عامل پیدائش بذاتہ آمدنی کا مالک اور مستحق نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو مستحق قرار دیں گے وہی مستحق ہوگا۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اگرچہ آمدنی کے اولین مستحق تو عوامل پیدائش ہی کو قرار دیا ہے، لیکن دولت کے ثانوی مستحقین کی ایک لمبی فہرست رکھی ہے، جو پیدا شدہ دولت میں اسی طرح حقدار ہیں جس طرح خود عوامل پیدائش۔ یہ ثانوی مستحقین معاشرے کے وہ افراد ہیں جو اگرچہ قلت وسائل کی وجہ سے اس عمل پیدائش میں براہ راست حصہ نہیں لے سکے، لین اسی انسانی معاشرے کا فرد ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی دولت میں ان کا بھی حصہ ہے۔ ان ثانوی مستحقین تک دولت پہنچانے کے لئے اسلام نے زکوٰۃ، عشر، صدقات، خراج، کفارات، قربانی اور وراثت کے احکام دیئے ہیں۔ جن کے ذریعے دولت کا بڑا حصہ ان ثانوی مستحقین تک پہنچ جاتا ہے۔

دولت کے اولین مستحقین یعنی عوامل پیداوار کو یہ آمدنی خواہ کرایہ کی صورت میں حاصل ہوئی ہو یا اجرت کی صورت میں یا منافع کی صورت میں، بہر صورت ان میں سے ہر شخص اس بات کا پابند ہے کہ وہ اپنی آمدنی میں سے ایک معتدبہ حصہ ان ثانوی مستحقین تک پہنچائے۔ اور یہ اس کی طرف سے کوئی احسان نہیں بلکہ اس کے ذمے ان کا حق ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’و في أموالھم حق معلوم، للسائل و المحروم۔‘‘ (المعارج: آیة ٢٤، ۲۵) ترجمہ: اور ان کے مالوں میں محتاج اور محروم کا معین حق ہے۔ اسی طرح زرعی پیداوار کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’و آتوا حقه یوم حصادہ‘‘ (الأنعام:آیة ١٤١) ترجمہ: اور کھیتی کٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو۔


(اسلام اور جدید معیشت و تجارت، ص:۴۴تا۴۹)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے