معاشیات قسط 3
از قلم: محمد اطہر
اس مضمون میں آپ پڑھیں گے:
• سرمایہ دارانہ نظام کا مختصر تعارف
• سرمایہ دارانہ نظام میں چاروں بنیادی معاشی مسائل کا حل
• منفعت
• طلب و رسد کا قانون
سرمایہ دارانہ نظام معیشت
اس وقت دنیا میں جو معاشی نظام رائج ہیں ان میں سب سے زیادہ نمایاں تین معاشی نظام ہیں: (۱) سرمایہ دارانہ نظام، (۲) اشتراکی نظام، (۳) مخلوط نظام۔
سرمایہ دارانہ نظام معیشت کا تعارف
سرمایہ دارانہ معیشت (Capitalist Economy) کو بازار معیشت (Market Economy)یا آزاد معیشت(Free Economy)بھی کہتے ہیں۔ ان الفاظ کے استعمال سے ہی ظاہر ہے کہ یہ معیشت بازار کے نظام پر قائم ہے۔ اور اس پر حکومت کا کنٹرول اگر صفر نہ ہو تو کم از کم ضرور ہوگا۔
اس وقت دنیا کے کسی ملک میں سرمایہ دارانہ نظام اپنی اصل اور خالص شکل میں باقی نہیں ہے بلکہ اس میں بہت ساری تبدیلیاں ہو چکی ہیں، اور مختلف قسم کی پابندیاں لگ چکی ہیں۔ اس لئے ہم خالص سرمایہ دارانہ نظام کا ایک مجرد تصور قائم کریں گےاور اسی کے تناظرمیں اس نظام کا مطالعہ کریں گے۔
سرمایہ دارانہ نظام سے ہماری مراد معیشت کے ایک ایسے نظام سے ہے جس میں افراد کو وسائل پیداوار کی ذاتی ملکیت کا حق حاصل ہو، اور معاشی افعال کو سر انجام دینے کے لئے حکومت کی جانب سے کوئی منصوبہ نہ بنایا جاتا ہو اور نہ ہی ان کے انجام دینے میں کسی طرح کی کوئی پابندی ہو، بلکہ یہ افعال آزاد قیمتوں کے نظام (طلب و رسد کے قانون) کی وساطت سے انجام پذیر ہوتے ہوں۔(1)
سرمایہ دارانہ نظام میں چاروں بنیادی معاشی مسائل کا حل
سرمایہ دارانہ نظام میں چاروں بنیادی معاشی مسائل کو حل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے طلب و رسد کا قانون۔ اس نظام کا کہنا یہ ہے کہ ہرشخص کو تجارتی و صنعتی سرگرمیوں کے لئے آزاد چھوڑ دیا جائے اور اسے چھوٹ دی جائے کہ زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لئے وہ جس طریقے کو مناسب سمجھے اختیار کرے۔ اس سے معیشت کے مذکورہ بالا چاروں مسائل خود بخود حل ہوتے چلے جائیں گے۔ کیونکہ جب ہر شخص کو فکر ہوگی کہ وہ زیادہ سے زیادہ نفع کمائے تو وہ شخص بازار میں وہی چیز لائے گا جس کی بازار میں طلب ہوگی، تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ نفع مل سکے، اور اتنی ہی مقدار میں لانے کی کوش کرے گا جتنی بازار میں ضرورت ہوگی۔ اس کے نتیجے میں چاروں مسائل طلب و رسد کے قانون کے ذریعے خود بخود حل ہوتے چلے جائیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ چاروں مسائل خود بخود کس طرح ھل ہوں گے؟ اس کے جواب سے پہلے مندرجہ ذیل نکتے ملاحظہ فرمائیں:
(الف) منفعت
یہاں منفعت سے مراد ہو وہ چیز ہے جس کو عامۃ الناس یا ان کی ایک قابل ذکر تعداد اپنے لئے مفید اور نافع سمجھتی ہو، اور عمل پیدائش سے مراد ہر وہ عمل ہے جو کوئی منفعت پیدا کرے۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ نظام میں جو بھی عمل کوئی منفعت پیدا کرے وہ عمل پیدائش ہے، چاہے وہ عمل اخلاقی اعتبار سے کتنا ہی برا کیوں نہ ہو۔ اس لئے کہ اقتصادی معاملات کا اخلاقی پہلو مغربی معاشیات کے دائرۂ کار سے باہر ہے۔ اس لئے کہ مغربی معاشیات میں اخلاقی معاملات سے بحث نہیں ہوتی۔
تھوڑی سی تبدیلی جدید نظام معیشت میں یہ پیدا ہوئی ہے کہ اس سے پہلے یعنی بیسویں صدی کی چوتھی دہائی تک خالص مادی اشیاء کو پیداواری سرگرمی کا مرکز سمجھا جاتا تھا، لیکن اب نئے تصور کی رو سے منافع، فوائد اور خدمات بھی اس میں شامل ہوگئی ہیں۔
خدمات و فوائد اور منافع ظاہر ہے مادیات سے ماوراء چیزیں ہیں۔ مادیات سے ماوراء جو کچھ بھی ہے، اگر وہ انسانوں کے لئے مفید ہے یا انسانوں کو پسند ہے تو پھر وہ پیداواری سرگرمی کا مرکز ہے۔ یہاں بھی اخلاقی اور مذہبی اعتبارات غیر متعلق ہیں۔ مذہبی اعتبار سے کوئی چیز اچھی ہے یا بری، مغربی معیشت کو اس سے بحث نہیں۔ اگر انسانون کی ایک قابل ذکر تعداد اس میں دلچسپی رکھتی ہے، اس پر پیسہ خرچ کرنا چاہتی ہے،اس کو حاصل کرنا چاہتی ہےتو اس کو فراہم کرنا ایک تجارتی اور پیداواری سرگرمی ہے۔
ظاہر ہے یہ بات اسلامی نقطۂ نظر سے قابل قبول نہیں ہے۔ اسلامی معاشیات تو در اصل ایک اخلاقی معاشیات ہےجس میں ’’قسط‘‘ یعنی حقیقی انصاف پر زور دیا گیا ہے۔ اس میں احسان اور ایثار کی تلقین بھی کی گئی ہے۔ ظاہر ہے احسان اور ایثار خالص مذہبی اقدار ہیں۔ آج کل کے تصورات کی رو سے تجارت کے باب میں ان کو کوئی باریابی حاصل نہیں ہو سکتی، لیکن اسلام کی تاریخ تجارت اور مذہبی تصورات ہمیشہ ساتھ ساتھ چلے ہیں۔(2)
(ب) طلب و رسد کا قانون
درحقیقت اس کائنات میں بہت سارے قدرتی قوانی کارفرما ہیں جو ہمیشہ ایک جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ انہی میں سے ایک قانون طلب و رسد کا قانون ہے جسے انگریزی میں demand and supply کہتے ہیں۔ رسد کہتے ہیں کسی بھی سامان تجارت کی اس مجموعی مقدار کو جا بازار میں فروخت کے لئے لائی گئی ہو۔ اور طلب کہتے ہیں خریداروں کی اس خواہش کو جس کی بنا پر وہ یہ سامان تجارت قیمتاً بازار سے خریدتے ہیں۔ اب طلب و رسد کا قدرتی قانون یہ کہ بازار میں جس چیز کی رسد اس کی طلب کے مقابلے میں زیادہ ہو، اس کی قیمت گھٹ جاتی ہے اور جس چیز کی طلب اس کی رسد کے مقابلے میں بڑھ جائے تو اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔
مثلاً گرمی کے موسم میں جب گرمی زیادہ پڑنے لگے تو بازار میں برف کے خریدار زیادہ ہو جاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ برف کی طلب بڑھ گئی۔ اب اگر برف کی مجموعی پیداوار یا بازار میں پائی جانے والی برف کی مجموعی مقدار اس طلب کے مقابلے کم ہو تو یقیناً برف کی قیمت بڑھ جائے گی، الا یہ کہ اس وقت برف کی پیداوار میں اتنا ہی اضافہ ہوجائے جتنا طلب میں اضافہ ہوا ہےتو پھر قیمت نہیں بڑھے گی۔ دوسری طرف سردی کے موسم میں برف کے خریدار کم ہوجاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ برف کی طلب گھٹ گئی، اب اگر بازار میں برف کی مجموعی مقدار اس طلب کے مقابلے میں زیادہ ہو تو یقیناً برف کی قیمت میں کمی آجائے گی۔ یہ ایک قدرتی قانون ہے جس کو قانون طلب و رسد کہتے ہیں۔(3)
طلب کے بڑھنے کی وجہ سے قیمتیں حقیقی طور سے بھی بڑھتی ہیں اور مصنوعی طور سے بھی بڑھائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر برف جمانے والی مشین آٹھ گھنٹے چل کر اتنی برف جماتی ہے کہ ایک شہر والوں کے لئے عام دنوں میں کافی ہو، لیکن جب سخت گرمی میں برف کی طلب بڑھ جاتی ہے تو اس مشین کا دورانیہ آٹھ گھنٹے سے بڑھاکر مثلاً سولہ گھنٹے کرنا پڑتا ہے اور محنت و وسائل کا بھی اضافہ کرنا پڑتا ہے۔
چونکہ برف کی طلب بڑھ گئی تو لازماً برف بنانے کے لئے جتنے وسائل اور محنت کی ضرورت پڑتی ہے ان سب کی طلب بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگ کمپنیوں، کارخانوں میں آٹھ گھنٹے کام کرنے کے بعد مزید کام کرتے ہیں، اس زائد وقت میں اس کی ایک گھنٹے کی اجرت تقریباً دو گھنٹے کی اجرت کے برابر ہوتی ہے، عام طور سے ایسا ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ اس اضافہ کا اثر لازمی طور سے اس سامان کی قیمت پر پڑتا ہے۔ مذکورہ مثال میں اس اضافہ کا اثر برف کی قیمت پر پڑ رہا ہے اور اس کی قیمت می اضافہ ہو رہا ہے۔ کسی چیز کی قیمت کا اس طرح اضافہ حقیقی اضافہ ہے۔
مصنوعی طریقے سے قیمت اس طرح بڑھائی جاتی ہےکہ بازار میں پہنچنے والے سامان کو جمع کرکے رکھا جاتا ہے، طلب کے باوجود نہیں دیا جاتاہے۔ دھیرے دھیرے بازار سے وہ سامان ختم ہو جاتا ہےیا بہت مشکل سے ملتا ہے، اس وقت وہ جمع کیا ہوا سامان نکالا جاتا ہےاور اسے من مانے دام میں بیچا جاتا ہے۔ کسی سامان کی قیمت کا اس طرح اضافہ مصنوعی اضافہ ہے۔
ان دونوں نکتوں کے مطالعہ کے بعد اب ہم پڑھیں گے کہ اس نظام میں چاروں بنیادی معاشی مسائل کو کس طرح حل کیا جاتا ہے۔ (قسط ۴)