معاشیات قسط 5، سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی اصول، سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیاں

معاشیات قسط 5

از قلم: محمد اطہر

اس مضمون میں آپ پڑھیں گے:

سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی اصول

(۱) ذاتی جائداد کا حق
(٢) انتخاب کی آزادی
(٣) ذاتی منافع کا محرک
(۴) حکومت کی عدم مداخلت یا کمترین مداخلت

سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیاں

(۱) معاشرتی انصاف کی کمی اور عدم مساوات
(۲) تجارتی چکر
(۳) مزدوروں کا استحصال
(۴) غیر مفید مقابلہ
(۵) انسانی فلاح

سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی اصول

سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی اصول

سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے مندرجہ بالا مختصر تعارف کے بعد ہم ذیل میں اس کے بنیادی اصول پر روشنی ڈالیں گے۔ اس نظام کے بنیادی اصول درج ذیل ہیں:

(۱)ذاتی جائداد کا حق

اس نظام میں ہر شخص کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ذاتی ملکیت میں ذاتی استعمال کی اشیاء بھی رکھ سکتا ہے اور وسائل پیداوار یعنی زمین، کارخانہ، محنت، سرمایہ وغیرہ۔ سرمایہ دارانہ معیشت کے مجرد نمونے میں جائداد کی ذاتی ملکیت کا حق لا محدود ہے۔ کوئی شخص یا تنظیم اپنی ملکیت میں لامحدود جائیداد رکھ سکتا ہے، اس پر کسی طرح کی کوئی روک ٹوک یا پابندی نہیں ہوتی۔

اس نظام میں افراد و تنظیم کو صرف اس بات کا ہی حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ملکیت میں جتنی چاہیں جائداد رکھ لیں، بلکہ اس حق سے مشتق ایک اور حق بھی ہے، اور وہ ہے جائداد میں اضافہ کا حق۔ اس نظام میں ہر شخص اپنی جائداد اور دولت کو نجی کاروبار کے ذریعے بڑھا سکتا ہے۔

جائداد کی ذاتی ملکیت کے حق کے تحت مندرجہ ذیل حقوق آتے ہیں:

الف: افراد کو وراثت کا حق حاصل ہے۔ یعنی افراد اپنے آبا و اجداد کی وفات کے بعد ان کی جائداد کے وارث ہو سکتے ہیں۔ اور اپنی وفات کے بعد اپنی جائداد کو وارثین کی جانب منتقل بھی کر سکتے ہیں۔

ب: آزاد کاروبار کا حق بھی جائداد کی ذاتی ملکیت کے حق سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے تحت مندرجہ ذیل امور آتے ہیں:

ب، ۱: افراد کو کاروبار کرنے کی آزادی ہے۔ اور وہ اپنی نجی جائداد جس کاروبار میں چاہیں لگا سکتے ہیں۔ اس بات کا فیصلہ کہ وہ اپنے وسائل کا کاروباری استعمال کس طرح کریں؟ بنیادی طور سے افراد کے ہاتھ میں ہے۔ حکومت یا کوئی تنظیم کسی طرح کا کوئی دباؤ نہیں ڈالتی کہ وسائل کے مالکان اپنے وسائل کو فلاں کاروبار میں لگائیں۔ ہر شخص جس کاروبار میں فائدہ دیکھے، وہیں اپنا سرمایہ اور وسائل لگا سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت کے لئے آزاد کاروبار کا حق اتنا اہم ہے کہ اس نظام معیشت کا متبادل نام ’’آزاد کاروباری معیشت‘‘ (Free Enterprise Economy) بھی ہے۔

ب، ۲: سرمایہ دارانہ معیشت میں افراد کو ’’معاہدوں کی آزادی‘‘ بھی حاصل ہوتی ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ افراد ایک دوسرے کے ساتھ مختلف قسم کے معاشی معاہدے کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ یہ معاہدے سرمایہ داروں اور محنت کشوں یا دو مختلف سرمایہ داروں کے درمیان ہو سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ معاہدے کی آزادی، آزاد کاروبار کے شروع ہونے اور جاری رہنے کے لئے ضروری ہے۔ کیونکہ محض مادی وسائل یا جائداد یا مشینوں کی مدد سے پیداواری عمل کو تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ اس کے لئے محنت کی بھی ضرورت ہے جو مشینوں کو بروئے کار لائے۔ محنت کے مالکان یعنی محنت کش، سرمایہ دارانہ نظام کے تحت سرمایہ داروں کے غلام نہیں ہیں۔ (جیسا کہ جاگیر دارانہ نظام میں ہوتا ہے کہ جاگیردار نہ صرف یہ کہ زمین کا مالک ہوتا ہے بلکہ ان پر کام کرنے والے کاشتکاروں کا بھی مالک ہوتا ہے۔)

سرمایہ دارانہ نظام میں کم از کم نظریاتی طور پر محنت کشوں کو سرمایہ داروں کی ہمسری کا مقام حاصل ہے۔ کیونکہ سرمایہ دار محض ایک ذریعۂ پیداوار یعنی سرمایہ کے مالک ہیں۔ اسی طرح محنت کش ایک دوسرے ذریعۂ پیداوار یعنی محنت کے مالک ہیں۔ دونوں اپنے اپنے طور پر آزاد ہیں کہ اپنے وسیلے کو جس کاروبار میں چاہیں لگائیں یا نہ لگائیں۔ اس لئے نظری طور پر دونوں فریق برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چونکہ پیداواری عمل کو بغیر سرمایہ یا بغیر محنت کے جاری رکھنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل اور غیر کارگذار ضرور ہے؛ اس لئے معاہدے کی آزادی ضروری ہو جاتی ہے۔ تاکہ سرمایہ اور محنت ایک دوسرے سے باہمی تعاون کے ذریعے پیداوار کے سماجی عمل کو جاری رکھ سکیں۔

(۲) انتخاب کی آزادی

آزاد بازار کی بنیاد پر قائم سرمایہ دارنہ معیشت اسی وقت کامیابی سے کام کرسکتی ہے جب کہ مندرجہ بالا خصوصیات کے ساتھ افراد کو انتخاب کی آزادی بھی حاصل ہو، اس آزادی کے تحت مندرجہ ذیل قسم کے امور آتے ہیں:

۱: اشیاء صرف میں انتخاب کی آزادی
۲: صرف و بچت میں انتخاب کی آزادی
۳: سرمایہ کاری کی آزادی
۴: پیشوں کے انتخاب کی آزادی

(۳)ذاتی منافع کا محرک

سرمایہ دارانہ معیشت میں معاشی اعمال کو چلانے والی قوت منافع کی قوت ہے۔ اس کو اصطلاح میں محرک منافع (profit motive) کہتے ہیں۔ یعنی معاشی اعمال کی تحریک زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے مقصد سے ہوتی ہے۔ محرک منافع کے مفروضے کی تہہ میں یہ خیال کار فرما ہے کہ ہر فرد اپنے مفاد کو بخوبی جانتا ہے اور وہ صرف اس قسم کے اعمال میں دلچسپی رکھتا ہےجس سے اس کا کسی قسم کا مفاد وابستہ ہو۔ اپنے مفاد کا خیال، انسانی عمل کے لئے بہترین محرک ثابت ہوتا ہے۔ اگر ہر شخص اپنے اپنے مفاد کی نگہبانی کرے اور اس کے لئے کوشاں رہے، تو بحیثیت مجموعی پورے سماج و معاشرے کا مفاد نہ صرف محفوظ رہے گا بلکہ بیش ترین بھی ہوگا۔

معاشیات میں مفاد سے مراد منافع ہوتاہے، جو پیدا کاروں کے عمل کے لئے تحریک کا باعث ہے۔ لیکن دوسرے طبقات بھی اپنے اپنے مفاد کی نگہداری کرتے ہیں۔ سرمایہ دار کا مفاد اس میں ہے کہ وہ مزدور کو کمترین مزدوری کی شرح دینے کی کوشس کرے، اور مزدور کا مفاد اس میں ہے کہ وہ بیش ترین مزدوری حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ تاجر طبقہ اس بات کی کوشش کرتاہے کہ وہ اپنی اشیاء کے لئے زیادہ سے زیادہ قیمت حاصل کرے، لیکن خریدار اس کے برعکس کم سے کم قیمت پر اشیاء حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان متضاد مقاصد کے درمیان مفاہمت اور تال میل بازار کی قوتوں (طلب و رسد) کے زریعے پیدا کی جاتی ہے۔ اس طرح سرمایہ دار اور مزدور دونوں ایک متوازن شرح مزدوری پر متفق ہوجاتے ہیں، کیونکہ اتفاق نہ ہونے کی صورت میں نقصان دونوں کا ہے۔

(۴) حکومت کی عدم مداخلت یا کمترین مداخلت

سرمایہ دارانہ نظام کا ایک اصول یہ تھا کہ حکومت تاجروں کی تجارتی سرگرمیوں میں مداخلت نہیں کرے گی، وہ جس طرح چاہیں گے تجارت کریں گے۔ کیونکہ سرمایہ دارنہ نظام میں قیمتیں آزادانہ طور سے طلب و رسد کے ذریعے طے ہوتی ہیں۔ اگر حکومت مداخلت کرے گی تو قیمتوں کے آزادانہ نظام میں بے ترتیبی آجائے گی جس کی وجہ سے طلب و رسد کا قانون بنیادی معاشی مسائل کو بہتر طریقے سے حل نہیں کر سکے گا۔ لہٰذا آزاد کاروباری معیشت کی عمدہ ترین کارکردگی کے لئے بہتر یہی ہے کہ حکومت کی مداخلت یا تو بالکل نہ ہو، اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کمترین مداخلت ہو۔ اس پالیسی کو ایک لاطینی لفظ ’’Laissez Faire‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے جس کا معنیٰ ہے ’’آزاد چھوڑ دو‘‘۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو انفرادی معاشی اور تجارتی اعمال میں مداخلت سے احتراز کرنا چاہیے، اور بازار میں طلب و رسد کی قوتوں کو آزاد چھوڑ دینا چاہیے۔

آزاد کاروبار کی پالیسی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومت کسی بھی قسم کے معاشی اعمال انجام نہیں دے گی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت مزدور کی مزدوری، سرمایہ کے سود اور زمین کے کرایہ اسی طرح دیگر اشیاء کی قیمتوں پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لگائے گی بلکہ اسے آزاد چھوڑ دے گی تاکہ طلب و رسد کا قدرتی قانون ان اشیاء کی قیمت طے کرے۔ حکومت صرف ان اعمال کو انجام دے گی جو اس کے لئے ضروری ہو اور دوسرے افراد کے بس میں نہ ہو۔ جیسے دفاعی ذمہ داریاں، ملک میں امن و امان قائم رکھنا، قانون و انتظام کی عملداری، سڑکوں کی تعمیر، دریاؤں پر پل اور باندھ کی تعمیر، سیلاب اور دیگر آفات سماویہ سے بچاؤ کی تدابیر وغیرہ۔(۱)

سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیاں(۲)

(۱) معاشرتی انصاف کی کمی اور عدم مساوات

اس نظام معیشت میں سرمایہ دار اپنے منافع کو بڑھانے اور دولت میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں امیروں اور غریبوں کی آمدنیوں میں پائے جانے والے فرق میں روز اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں سماجی انصاف کی کمی اور دولت اور آمدنیوں میں پائے جانے والے فرق میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

(۲)تجارتی چکر

سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں تجارتی چکر، گرم بازاری اور سرد بازاری کے نتیجے میں معیشت غیر مستحکم ہوجاتی ہے۔ گرم بازاری کے نتیجے میں پیداوار، روزگار اور آمدنیوں میں اضافہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں خوشحالی پیدا ہوتی ہے۔ کساد بازاری کی صورت میں اشیاء کی پیداوار گھٹنے لگتی ہے اس لئے کہ لوگوں کی طلب کم ہوجاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں بےروزگاری بڑھنے لگتی ہے اور لوگوں کی آمدنیاں گھٹنی شروع ہو جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں تجارتی چکر اکثر و بیشتر نمودار ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں پیداوار اور صرف میں توازن برقرار نہیں رہتا اور معیشت غیر استحکامی کا شکار ہوتی ہے۔

(۳) مزدوروں کا استحصال

سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں سرمایہ دار طبقہ (producers)مزدوروں سے زیادہ سے زیادہ کام لے کر اپنی آمدنیوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ دوسرے معنوں میں پیداکار (سرمایہ دار) مزدوروں کا استحصال کرتے ہیں۔

(۴) غیر مفید مقابلہ

ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں مسابقت کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ مسابقت کے نتیجے میں معیشت کے ذرائع اکثر غیر نفع بخش اغراض پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ دوسرے معنوں میں پیدا کار اپنے سرمایہ کا ایک بہت بڑا حصہ Publicity یا اشتہار بازی پر خرچ کرتے ہیں، جس سے سماج کو کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔

(۵)انسانی فلاح

سرمایہ دارانہ نظام میں انسانی فلاح کا تصور نہیں پایا جاتا ہے۔ کیونکہ پیدا کار صرف ایسی اشیاء پیدا کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں جن سے ان کو زیادہ سے زیادہ نفع حاصل ہو۔ چنانچہ وہ ایسی اشیاء کی پیداوار میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں جو دولت مند افراد استعمال کرتے ہیں۔

اس کے بعد انشاء اللہ آپ’’ اشتراکی نظام معیشت‘‘ کے بارے پڑھیں گے۔ (قسط ۶)


(١)علم معاشیات اور اسلامی معاشیات ، ص: ۶۷
(٢)معاشیات از مرزا فرید علی بیگ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1 thought on “معاشیات قسط 5، سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی اصول، سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیاں”