معاشیات قسط 6
از قلم: محمد اطہر
اس مضمون میں آپ پڑھیں گے:
اشتراکی نظام معیشت کا تعارف
اشتراکی نظام میں چاروں بنیادی معاشی مسائل کا حل
اشتراکی نظام معیشت کا تعارف
دوسرا سب سے زیادہ نمایاں نظام، اشتراکی نظام ہے۔ اس کی امتیازی خصوصیت ’’Centrally Planned Economy‘‘ یا ’’مرکزی منصوبہ بندی کا قیام‘‘ ہے۔ اشتراکیت کے فلسفے کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ سماج میں جائداد کی نجی ملکیت ہونے کے بجائے مشترکہ ملکیت ہونی چاہیے۔
اشتراکیت درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے رد عمل کے طور پر وجود میں آئی۔ اشتراکی نظام کا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں افراد کو نجی ملکیت کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اور عمل پیدائش کا اصل محرک، زیادہ سے زیادہ نفع کا حصول ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر شخص کو زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لئے آزاد چھوڑ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے مزدوروں کا استحصال ہوتا ہے۔
چونکہ اس نظام میں، معیشت کے بنیادی مسائل، طلب و رسد کے قانون کے ذریعے حل ہوتے ہیں۔ اس میں فلاح عامہ اور غریبوں کی بہبود وغیرہ کا کوئی واضح اہتمام نہیں ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کی دوڑ میں کمزور اور غریب افراد کے پسنے کے واقعات بکثرت پیش آئے، اور ان کا بہت زیادہ استحصال ہوا؛ اس لئے اشتراکیت انہی خرابیوں کے سد باب کا دعویٰ لیکر میدان میں آئی۔ اور اس نے سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی فلسفے کو چیلنج کرتے ہوئے یہ ماننے سے انکار کیا کہ معیشت کے چاروں بنیادی مسائل محض ذاتی منافع کے محرک، نجی ملکیت اور بازار کی قوت یعنی طلب و رسد کی بنیاد پر حل کئے جا سکتے ہیں۔
اشتراکیت نے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں معیشت کے تمام بنیادی مسائل طلب و رسد کے حوالے کردیئے گئے، جو خالصتاً ذاتی منافع کے محرک کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ان کو فلاح عامہ کے مسائل کا ادراک نہیں ہوتا۔ خاص طور سے آمدنی کی تقسیم میں یہ قوتیں غیر منصفانہ نتائج پیدا کرتی ہیں۔ جس کی ایک سادہ سی مثال یہ ہے کہ اگر مزدوروں کی رسد زیادہ ہو تو ان کی اجرت کم ہوجاتی ہے۔ اور بسا اوقات مزدور اس بات پر مجبور ہوتے ہیں کہ وہ انتہائی کم اجرت پر کام کریں۔ اور جو پیداوار ان کے گاڑھے پسینے کی محنت سے تیار ہورہی ہے اس میں سے انہیں اتنا بھی حصہ نہ مل سکے جس کے ذریعے وہ اپنے اور اپنے بچوں کے لئے صحت مند زندگی کا اہتمام کر سکیں۔
چونکہ ان کی محنت کی طلب رکھنے والے سرمایہ دار کو اس سے غرض نہیں کہ جس اجرت پر وہ ان سے محنت لے رہا ہے وہ واقعتاً ان کی محنت کا مناسب صلہ اور ان کی ضروریات کا واقعی کفیل ہے یا نہیں؟ اسے تو صرف اس بات سے غرض ہے کہ رسد کی زیادتی کی وجہ سے وہ اپنی طلب کی تسکین نہایت کم اجرت پر کر سکتا ہے، جس سے اس کے منافع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو۔ لہٰذا اشتراکیت کے نظریے کے مطابق آمدنی کی تقسیم کے لئے طلب و رسد کا فارمولا ایک ایسا بے حس فارمولا ہے جس میں غریبوں کی ضروریات کی رعایت نہیں ہے۔ بلکہ وہ سرمایہ دار کے ذاتی منافع کے محرک کے تابع ہے اور اسی مدار پر گردش کرتا ہے۔
اسی طرح ترجیحات کے تعین، وسائل کی تخصیص اور ترقی جیسے اہم معاشی مسائل کے سلسلے میں اشتراکیت کا کہنا ہے کہ ان کو طلب و رسد کی اندھی بہری طاقتوں کے حوالے کرنا معاشرے کے لئے خطرناک ہے۔ اس لئے کہ ایک صنعت کار یا زراعت پیشہ فرد یہ سوچ کر اپنی پیداوار میں اضافہ کرتا جاتا ہے کہ ابھی بازار میں اس چیز کی طلب ہے۔ حالانکہ وہ چیز بازار میں طلب کی مقدار کو پہنچ چکی ہوتی ہے۔ لیکن اسے ابھی معلوم نہیں ہوتا ہے۔ وہ تو یہی سوچ کر اپنی پیداوار میں اضافہ کرتا جاتا ہے کہ ابھی بازار میں طلب باقی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس صنعت کار یا زراعت پیشہ فرد کی پیدا شدہ اشیاء کا کوئی طلبگار نہیں ہوتا یا طلب کے کم ہونے کی وجہ سے اسے اتنی بھی قیمت نہیں مل پاتی جتنی اس میں لاگت آئی ہے۔ اس وجہ سے زراعت پیشہ افراد یا صنعت کار دیوالیہ ہوجاتے ہیں۔ بہت سے کارخانے بند ہوجاتے ہیں جس کا اثر مزدوروں اور سرمایہ لگانے والوں پر بھی ہوتا ہے۔ اور معاشرے میں ایک طرح سے معاشی خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔
نظریاتی طور سے تو یہ بات درست ہو سکتی ہے کہ ذاتی منافع کے محرک کے تحت ایک زراعت پیشہ شخص یا صنعت کار اس وقت تک اپنی پیداوار جاری رکھیں جب تک کہ اس کی رسد، طلب کے برابر نہ ہوجائے۔ اور جب رسد، طلب سے بڑھنے لگے تو وہ اپنی پیداوار بند کردے۔ لیکن عملی دنیا میں کسی کے پاس کوئی ایسا پیمانہ نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ بروقت جان سکے کہ اب فلاں پیداوار کی رسد، طلب کے برابر ہوگئی ہے اور وہ مزید پیداوار بند کردے۔ لہٰذ محض طلب و رسد کے قانون کی بنیاد پر ترجیحات کا تعین اتنے توازن سے نہیں ہوسکتا جس کی معاشرے کو واقعی ضرورت ہے۔(۱)
اشتراکی نظام میں چاروں بنیادی معاشی مسائل کا حل
اب سوال یہ ہے کہ پھر مذکورہ بالا مسائل کے حل کرنے کا کیا طریقہ ہونا چاہیے؟ اس کے جواب میں اشتراکیت نے یہ فلسفہ پیش کیا کہ بنیادی خرابی یہاں سے پیدا ہوئی کہ سرمایہ دارانہ نظام میں وسائل پیداوار یعنی زمینوں اور کارخانوں پر لوگوں کو انفرادی ملکیت کا حق دے دیا گیا۔ ہونا تویہ چاہیے تھا کہ تمام وسائل پیداوار افراد کی شخصی ملکیت میں ہونے کے بجائے ریاست کی اجتماعی ملکیت میں ہوتے۔ اور جب یہ سارے وسائل ریاست کی ملکیت مکیں ہوں گے تو حکومت کو یہ پتہ ہوگا کہ اس کے پاس کل وسائل کتنے ہیں؟ اور معاشرے کی ضروریات کیا کیا ہیں؟ اس بنیاد پر حکومت ایک منصوبہ بندی کرے گی۔ جس میں یہ طے کیا جائے گا کہ معاشرے کی کن ضروریات کو مقدم رکھا جائے؟ کونسی چیز کس مقدار میں پیدا کی جائے؟ اور مختلف وسائل کو کس ترتیب کے ساتھ کن کن کاموں میں لگایا جائے؟
گویا ترجیحات کا تعین، وسائل کی تخصیص اور ترقی، یہ تینوں حکومت کی منصوبہ بندی کے تحت انجام پائیں، نہ کہ طلب و رسد کے تحت۔ رہا آمدنی کی تقسیم کا سوال، تو اشتراکیت نے دعویٰ یہ کیا کہ درحقیقت عوامل پیداوار صرف دو ہیں: زمین اور محنت۔ زمین چونکہ انفرادی ملکیت نہیں بلکہ اجتماعی ملکیت ہے؛ لہٰذا اس پر کوئی متعین کرایہ یا لگان دینے کی ضرورت نہیں۔ اب صرف محنت رہ جاتی ہے۔ اس کی اجرت کا تعین بھی حکومت اپنی منصوبہ بندی کے تحت یہ بات مد نظر رکھتے ہوئے کرے گی کہ مزدوروں کو ان کی محنت کا مناسب صلہ ملے۔ (اشتراکیت کی جانب سے پیش کیا گیا فلسفہ پورا ہوا)
جس طرح سرمایہ دارنہ نظام نے مذکورہ چاروں بنیادی مسائل کو صرف ذاتی منافع کے محرک اور طلب و رسد کی بنیاد پر حل کرنا چاہا تھا، اسی طرح اشتراکیت نے ان چاروں مسائل کے حل کے لئے ایک ہی بنیادی حل تجویز کیا، اور وہ ہے ’’منصوبہ بندی‘‘۔ اس لئے اشتراکی معیشت کو منصوبہ بند معیشت (Planned Economy)بھی کہا جاتا ہے۔(۲) (قسط ۷)