معاشیات قسط 7، اشتراکی نظام معیشت کے بنیادی اصول

معاشیات، قسط:7

از قلم: محمد اطہر

اس مضمون میں آپ پڑھیں گے:

اشتراکی نظام معیشت کے بنیادی اصول

(۱) وسائل پیداوار کی اجتماعی ملکیت
(۲) منافع کے بجائے سماجی فلاح کے لئے پیداوار
(۳) مرکزی معاشی منصوبہ بندی
(۴) آمدنی کی منصفانہ تقسیم

 آمدنی کی منصفانہ تقسیم پر تبصرہ

اشتراکی نظام معیشت کے بنیادی اصول

اشتراکی نظام معیشت کے بنیادی اصول

 اشتراکی نظام معیشت کے بنیادی اصول درج ذیل ہیں:

(۱) وسائل پیداوار کی اجتماعی ملکیت

 اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ ذاتی استعمال کی اشیاء تو ذاتی ملکیت میں ہوسکتی ہیں، لیکن وسائل پیداوار کسی شخص کی ذاتی ملکیت میں نہیں ہوں گے۔ بلکہ اس پر پورے سماج و معاشرے کی مشترکہ ملکیت ہوگی۔ چونکہ حکومت معاشرے کا سب سے منظم ادارہ ہے؛ اس لئے وسائل پیداوار حکومت کے زیر انتظام ہوں گے۔ حکومت، معاشرہ اور عوام کے مصالح اور مفادات کا لحاظ کرتے ہوئے اس میں تصرف کرے گی۔

اس طرح تمام کارخانوں اور پیداواری زمینوں یہاں تک کہ دوکانوں پر حکومت کا کنٹرول ہوتا ہے۔ کسی شخص کی ذاتی ملکیت میں نہیں ہوتیں۔ ان میں کام کرنے والے افراد حکومت کے ملازم ہوتے ہیں۔ وسائل پیداوار سے حاصل ہونے والی آمدنی ساری کی ساری حکومت کے خزانے میں جاتی ہے۔ پھر وہاں سے سارے ملازمین اور پیداواری عمل میں حصہ لینے والے تمام افراد کو منصوبہ بندی کے تحت تنخواہیں دی جاتی ہیں۔

(۲) منافع کے بجائے سماجی فلاح کے لئے پیداوار

 سرمایہ دارنہ نظام میں پیداواری عمل کا مقصد منافع کا حصول ہوتا ہے۔ چنانچہ اس نظام میں پیداوار کا محرک ہی منافع ہے۔ لیکن اشتراکی نظام میں پیداوار کا اصل مقصد سماجی فلاح ہے۔ جس چیز کی پیدائش سے معاشرے اور سماج کو فائدہ ہوگا، اسی چیز کی پیدائش کی جائے گی۔ اور جس چیز سے معاشرہ کو نقصان ہو اس کی پیدائش نہیں کی جائے گی۔

(۳) مرکزی معاشی منصوبہ بندی

 منصوبہ ایک ایسی معاشی دستاویز ہے، جس کے ذریعے اشتراکی ریاست کی معاشی زندگی میں ترتیب اور نظم و ضبط پیدا کیا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں تمام معاشی مسائل کو طلب و رسد کے قانون کی بنیاد پر حل کیا جاتا ہے۔ لیکن یہی کام اشتراکی نظام میں منصوبہ بندی کے تحت کیا جاتا ہے۔

ملک میں ایک مرکزی منصوبہ بندی کمیشن ہوتا ہے، جو ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے منصوبہ بناتا ہے۔ اس منصوبہ بندی میں تمام معاشی ضروریات اور تمام معاشی وسائل کے اعداد و شمار جمع کئے جاتے ہیں اور یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کونسے وسائل کس چیز کی پیداوار میں لگائے جائیں؟ اور کونسی چیز کس مقدار میں پیدا کی جائے؟ نیز کس شعبے میں محنت کرنے والوں کی کیا اجرت مقرر کی جائے؟ یہ منصوبے کسی خاص مدت کے لئے تیار کئے جاتے ہیں۔ جیسے پنج سالہ منصوبہ، سات سالہ منصوبہ وغیرہ۔

ہر منصوبے کے کچھ مقاصد ہوتے ہیں، مثلاً تیز رفتار معاشی ترقی، صنعت کا پھیلاؤ، درآمد کی کمی اور برآمد کا فروغ وغیرہ۔ ان مقاصد کا تعین حکومت کرتی ہے۔ منصوبہ بندی کے ماہرین ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے کوئی خاص حکمت عملی وضع کرتے ہیں، جس کے ذریعے ان اعلان شدہ مقاصد کو حاصل کیا جاتا ہے۔ اشتراکی معیشت کا مرکزی معاشی منصوبہ ملک کی پوری معاشی زندگی اور اس کے مختلف جہتوں کا احاطہ کرتاہے۔ منصوبہ بندی کو اشتراکی طرز زندگی میں واقعی ایک مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔

(۴) آمدنی کی منصفانہ تقسیم

 اشتراکیت کا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی ایک بڑی خرابی دولت اور آمدنی کی تقسیم میں عدم مساوات کی موجودگی ہے۔ اس عدم مساوات کا سب سے بڑا سبب ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت ہے۔ اشتراکی معیشت میں ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت ہوتی ہے؛ اس لئے آمدنی اور دولت میں عدم مساوات کا ایک بڑا سبب ختم ہو جاتا ہے۔

اجتماعی ملکیت کے سبب اگر آمدنی کی عدم مساوات کا مکمل خاتمہ نہیں ہوتا تو بھی اس میں بڑی حد تک مساوات لے آئی جاتی ہے۔ اشتراکی معیشت میں سرمایہ دارانہ معیشت کی طرح یہ ناہمواری نہیں پائی جاتی کہ معاشی طاقت کا ارتکاز صرف چند ہاتھوں یا چند گھرانوں میں ہو۔ چند افراد کروڑ پتی ہوں اور لاکھوں دوسرے افراد غربت اور محرومی کی زندگی گذارنے پر مجبور کردئے جائیں۔ اشتراکی طرز معیشت سماج کے ہر فرد کو کم از کم معیاری زندگی گذارنے کی ضمانت دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت کی طرح اشتراکی معیشت میں بےروزگاروں کی فوج نہیں بنتی۔(۱)

 آمدنی کی منصفانہ تقسیم کے سلسلے میں اشتراکی نظام کے یہ سارے دعاوی ہیں، لیکن حقیقت کیا ہے اسے تبصرہ میں ملاحظہ فرمائیں:

آمدنی کی منصفانہ تقسیم کے دعویٰ پر تبصرہ

 حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مد ظلہ العالی اپنی کتاب ’’اسلام اور جدید معیشت و تجارت‘‘ میں لکھتے ہیں: جہاں تک تقسیم دولت کا تعلق ہے، اشتراکیت نے ابتداء ًیہ دعویٰ کیا تھا کہ منصوبہ بند معیشت میں آمدنی کی مساوات قائم ہوگی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ تمام افراد کو برابر آمدنی ملے گی۔ لیکن یہ محض ایک نظریاتی خواب تھا اور بعد میں نہ صرف یہ کہ عملاً مساوات قائم نہیں ہوئی، بلکہ نظریاتی طور پر بھی مساوات کا دعویٰ واپس لے لیا گیا۔ اور وہاں بھی اجرتوں کے درمیان شدید تفاوت قائم ہوا۔ چونکہ اجرتوں کا تعین تمام تر حکومت کرتی تھی؛ اس لئے اس تعین میں ایک عام مزدور کو کوئی دخل نہیں ہوتا تھا۔ اور اگر اس کو اجرت کا یہ تعین غیر منصفانہ محسوس ہو تو اس کے خلاف چارہ جوئی کی بھی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کم از کم یہ ہوتا ہے کہ مزدور اپنی اجرت بڑھوانا چاہیں تو اس کے لئے نہ صرف یہ کہ آواز بلند کرسکتے ہیں، بلکہ احتجاج کے دوسرے ذرائع مثلاً ہڑتال وغیرہ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ لیکن اشتراکی نظام سیاست میں اس قسم کی آواز بلند کرنے یا احتجاج کے ذرائع اختیار کرنے کی گنجائش نہیں۔ اس لئے عملاً اشتراکی نظام میں مزدوروں کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا۔ بلکہ آخر میں نتیجہ یہی نکلا کہ اشتراکی ممالک کے محنت کشوں کی زندگی کا معیار سرمایہ دارانہ ممالک کے مزدوروں سے بھی کمتر رہا۔ اور بالآخر لوگوں نے تنگ آکر پھر اسی سرمایہ دارانہ نظام کا خیر مقدم کیا جس سے وہ نکل کر بھاگے تھے۔ یہ نتائج ان ملکوں میں زیادہ واضح طور پر مشاہدے میں آئے جہاں ایک ہی ملک کا کچھ حصہ اشتراکیت کے زیر اثر تھا اور دوسرا حصہ سرمایہ دارانہ نظام کے زیر اثر تھا۔ مثلاً مشرقی اور مغربی جرمنی، مغربی جرمنی ترقی کرتا ہوا کہیں سے کہیں پہنچ گیا اور مشرقی جرمنی اس کے مقابلے میں بہت پیچھے رہا۔ وہاں کے مزدوروں کی حالت بھی مغربی جرمنی کے مقابلے میں پس ماندہ رہی۔ یہاں تک کہ لوگوں نے تنگ آکر دیوار برلن توڑدی۔ اور اشتراکیت کی ناکامی کا عملاً اعتراف کرلیا۔(۲) (قسط ۸)

اشتراکی معیشت کے بنیادی اصول کے تحت اور بھی اصول ہیں، ان شاء اللہ آپ انہیں اگلی قسط میں پڑھیں گے۔


(۱) علم معاشیات اور اسلامی معاشیات، ص:۷۷
(۲) اسلام اور جدید معیشت و تجارت، ص:۵۱

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے