معاشیات قسط: 4
از قلم : محمد اطہر
اس مضمون میں آپ پڑھیں گے:
سرمایہ دارانہ نظام میں چاروں بنیادی معاشی مسائل کا حل
ترجیحات کا تعین
وسائل کی تخصیص
آمدنی کی تقسیم
ترقی
سرمایہ دارانہ نظام میں چاروں بنیادی معاشی مسائل کا حل
سرمایہ دارانہ نظام کا فلسفہ یہ کہتا ہے کہ طلب و رسد کا یہ قانون ہی درحقیقت زراعت پیشہ افراد کے لئے اس بات کا تعین کرتا ہےکہ وہ اپنی زمینوں میں کیا چیز اگائیں؟ اور کس مقدار میں اگائیں؟ اور یہی قانون صنعت کاروں اور تاجروں کے لئے اس بات کا تعین کرتا ہے کہ وہ کیا چیز کتنی مقدار میں بازار میں لائیں؟ اور اس طرح معیشت کے چاروں مسائل خود بخود حل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ترتیب وار چاروں مسائل درج ذیل ہیں:
(1) ترجیحات کا تعین
طلب و رسد کے قانون سے ترجیحات کا تعین اس طرح ہوتا ہےکہ جب اس نظام میں ہر شخص کو زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لئے آزاد چھوڑ دیا گیا تو ہر شخص اپنے منافع کی خاطر وہی چیز بازار میں لانے کی کوشش کرے گا جس کی ضرورت یا طلب ہوگی تاکہ اسے اس کی مناسب قیمت مل سکے۔
زراعت پیشہ افراد وہی چیز اگانے کو ترجیح دیں گے جن کی بازار میں طلب ہو اور صنعت کار وہی مصنوعات تیار کرنے کی کوشش کریں گےجن کی بازار میں مانگ ہو، کیونکہ اگر یہ لوگ ایسی چیز بازار میں لائیں گے جن کی طلب اور مانگ نہ ہو تو وہ بازار سے مناسب نفع نہیں حاصل کر سکیں گے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص اگرچہ اپنےمنافع کے لئے کام کر رہا ہے لیکن طلب و رسد کی قدرتی طاقت اسے مجبور کر رہی ہے کہ وہ معاشرہ کی طلب و ضرورت کو پوری کرے۔ یہاں تک کہ جب کسی چیز کی پیداوار بازار میں اتنی آجائے کہ وہ اس کی طلب کے برابر ہو جائے تو اب اسی چیز کا مزید پیدا کرنا چونکہ تاجر اور صنعت کار کے لئے نفع بخش نہیں ہوگا؛ اس لئے وہ اب اس کی پیداوار بند کردے گا۔ اسی طرح بازار میں جس چیز کی طلب جتنی مقدار میں ہو، تجار اور صنعت کار اس چیز کو اتنی ہی مقدار میں پیدا کرنے اور بازار میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس طرح طلب و رسد کے قانون سے ترجیحات کا تعین ہوتا ہے۔
(2) وسائل کی تخصیص
اس کا تعلق بھی درحقیقت ترجیحات کے تعین ہی سے ہے۔ جب کوئی شخص باقاعدہ ترجیحات کا تعین کرلیتا ہے کہ اسے کیا چیز کتنی مقدار میں پیدا کرنی ہے تو وہ اسی حساب سے موجودہ وسائل یعنی زمین، سرمایہ اور محنت کو ان چیزوں کی پیداوار میں لگاتا ہے۔ جس چیز کی طلب زیادہ ہوتی ہے اس کے لئے زیادہ وسائل کی تخصیص کرتا ہے۔ اور جس چیز کی طلب کم ہوتی ہے اس کے لئے کم وسائل کی تخصیص کرتا ہے، تاکہ وہ ایسی چیزیں بازار میں لاسکے جن کی بازار میں طلب ہو اور اتنی مقدار میں لاسکے جتنی مقدار میں طلب و ضرورت ہو، تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرسکے۔ لہٰذا جس طرح طلب و رسد کے قوانین کے ذریعے ترجیحات کا تعین ہوتا ہے اسی طرح طلب و رسد کے قوانین کے ذریعے وسائل کی تخصیص کا مسئلہ بھی خود بخود حل ہو جاتا ہے۔
(3)آمدنی کی تقسیم
تیسر مسئلہ آمدنی کی تقسیم کا ہے۔ کسی بھی عمل پیدائش کے نتیجے میں جو پیداوار یا آمدنی حاصل ہوئی اسے معاشرے میں کس بنیاد پر تقسیم کیا جائے؟ سرمایہ دارانہ نظام کا کہنا ہے کہ جو کچھ آمدنی حاصل ہوئی وہ انہی عوامل کے درمیان تقسیم ہونی چاہیے جنہوں نے عمل پیدائش میں حصہ لیا۔ سرمایہ دارانہ فلسفہ کے مطابق یہ عوامل کل چار ہیں: (۱)زمین، (۲)محنت، (۳)سرمایہ،(۴)آجر یا تنظیم۔
آجر یا تنظیم سے مراد وہ شخص ہے جو ابتداءً کسی عمل پیدائش کا ارادہ کرکے پہلے تین عوامل کو اس کام کے لئے اکٹھا کرتا ہے اور نفع و نقصان کا خطرہ مول لیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا کہنا یہ ہے کہ عمل پیدائش کے نتیجے میں جو کچھ آمدنی حاصل ہو وہ اس طرح تقسیم ہونی چاہیے کہ زمین مہیا کرنے والے کو کرایہ دیا جائے، محنت کرنے والے کو اجرت دی جائے، سرمایہ فراہم کرنے والے کو سود دیا جائےاور آجر جو اس عمل پیدائش کا اصل محرک تھا اسے منافع دیا جائے۔ یعنی زمین کا کرایہ، محنت کی اجرت اور سرمایہ کا سود ادا کرنے کے بعد جو کچھ بچے وہ آجر کا منافع ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ تعین کس طرح ہو کہ زمین کو کتنا کرایہ دیا جائے؟ محنت کو کتنی اجرت دی جائے؟ اور سرمایہ کو کتنا سود دیا جائے؟ اس سوال کے جواب میں سرمایہ دارانہ نظام پھر اسی قانون طلب و رسد کو پیش کرتا ہے۔ یعنی یہ کہتا ہے کہ ان تینوں عوامل کے معاوضے کا تعین ان کی طلب و رسد کی بنیاد پر ہی ہوگا۔ ان عوامل میں سے جس عامل کی طلب زیادہ ہوگی اس کا معاوضہ بھی زیادہ ہوگا۔
فرض کیجئے کہ زید ایک موبائل بنانے والی کمپنی شروع کرنا چاہتا ہے، چونکہ وہ اس صنعت کا محرک ہے اور وہی نفع و نقصان کا خطرہ مول لیکر عوامل پیداوار کو اکٹھا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اس لئے معاشی اصطلاح میں اسے آجر (Entrepreneur) کہا جاتا ہے۔ اب اسے کمپنی شروع کرنے کے لئے پہلے تو زمین کی ضرورت ہے، اگر زمین اس کے پاس نہیں ہے تو اسے کرایہ پر لینی پڑے گی۔ اب اس کرایہ کا تعین زمین کی طلب و رسد کی بنیاد پر ہوگا۔ اگر زمین کرایہ پر دینے والے بہت سارے افراد ہیں اور لینے والے اس کے مقابلے میں کم ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کی رسد زیادہ ہے اور طلب کم ہے۔ ایسی صورت میں زمین کا کرایہ کم ہوجائے گا۔ اور اگر اس کے برعکس ہو، یعنی کرایہ پر دینے والے افراد کم ہوں اور لینے والے اس کے مقابلے زیادہ ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کی طلب زیادہ ہے اور رسد کم ہے، ایسی صورت میں زمین کا کرایہ بڑھ جائے گا۔ اس طرح طلب و رسد کے قانون کے ذریعے کرایہ کا تعین ہوگا۔
پھر اسے کمپنی میں کام کرنے کے لئے مزدور درکار ہوں گے جن کو معاشی اصطلاح میں محنت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ انہیں اجرت دینی پڑے گی، اس اجرت کا تعین بھی طلب و رسد کی بنیاد پر ہوگا۔ اگر بہت سے مزدور کام کرنے کے لئے تیار ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ محنت کی رسد زیادہ ہے، ایسی صورت میں اس کی اجرت کم ہوگی۔ لیکن اگر کام کرنے والے مزدور زیادہ نہ ہوں اور اس کے مقابلے میں مزدوروں کی مانگ زیادہ ہوتو اس کا مطلب ہے کہ محنت کی طلب زیادہ ہے، ایسی صورت میں مزدور کی اجرت زیادہ ہوگی۔
اسی طرح کمپنی شروع کرنے والے کو مشینری اور خام مال خریدنے کے لئے سرمایہ کی ضرورت ہوگی، جس پر سرمایہ دارانہ نظام میں اسے سود دینا پڑے گا۔ اس سود کی مقدار کا تعین بھی طلب و رسد کی بنیاد پر ہوگا۔ اگر سرمایہ دینے والے بہت سے افراد ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ سرمایہ کی رسد زیادہ ہے۔ ایسی صورت میں کم سود دینا پڑے گا۔ اور اگر سرمایہ دینے والے افراد کم ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ سرمایہ کی رسد کم ہے اور اسے کے مقابلے میں سرمایہ کی طلب زیادہ ہے، تو ایسی صورت میں سرمایہ پر زیادہ سود دینا پڑے گا۔ اس طرح شرح سود کا تعین بھی طلب و رسد کی بنیاد پر ہوگا۔
اور جب طلب و رسد کی بنیاد پر کرایہ ، اجرت اور سود کا تعین ہو گیا، تو اب عمل پیدائش کے نتیجے میں کمپنی سے جو آمدنی حاصل ہوگی، اس میں سے سب سے پہلے ان تینوں کو ان کی متعین مقدار کے حساب سے دیا جائے گا۔ اس کے بعد باقی ماندہ حصہ آجر یا تنظیم کو نفع کے طور پر ملے گا۔ اس طرح آمدنی کی تقسیم کا بنیادی مسئلہ بھی سرمایہ دارانہ نظام میں طلب و رسد کے قانون کے ذریعے ہی حل ہوتا ہے۔
(4)ترقی
چوتھا معاشی مسئلہ ترقی کا ہے۔ یعنی عمل پیدائش کے نتیجے میں جو پیداوار حاصل ہوئی، اس میں ترقی کیسے ہو؟ اس میں معیار کے اعتبار سے بہتری اور مقدار کے اعتبار سے اضافہ کیسے ہو؟ یہ مسئلہ بھی سرمایہ دارانہ نظام میں طلب و رسد کی بنیاد پر ہی حل ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب ہر شخص کو زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لئے آزاد چھوڑا جائے گا تو طلب و رسد کا قدرتی قانون اسے خود بخود اس بات پر آمادہ کرے گا کہ وہ نئی سے نئی چیزیں بہتر سے بہتر معیار میں بازار میں لائے تاکہ اس کی مصنوعات کی فروخت زیادہ ہواور اسے زیادہ نفع حاصل ہوسکے۔ (قسط ۵)