Urdu speech on Islam | مذہب اسلام پر تقریر | اسلام امن و سلامتی کا مذہب

Urdu speech on Islam

ماخوذ از: مسابقاتی تقریریں

اسلام امن و سلامتی کا مذہب

الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَ الصَّلوٰةُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ رَسُوْلِهِ الْأَمِيْنِ أَمَّا بَعْد!

ہمارے باغ میں امن و اماں کے پھول کھلتے ہیں
ہمارا کام ہے انسان کو انساں بنادینا

صدر با وقار، حَکَم صاحبان اور سامعینِ کرام!

میری تقریر کا موضوع ہے ’’اسلام امن و سلامتی کا مذہب‘‘

حضرات!

اسلام پوری انسانیت کے لیے امن و امان کا مذہب اور قیامِ امن کا داعی ہے۔ اسلام ’’سَلَم‘‘ سے بنا ہے جس کے معنیٰ ہیں امن و سلامتی، قرآن مجید کی سورہ حشر میں اس مذہب کو بنانے والے اللہ کا نام ’’السَّلَامُ‘‘ اور ’’الْمُؤْمِنُ‘‘ آیا ہے، جس کے معنی ہیں سراسر سلامتی اور امن دینے والا، اس امن و سلامتی والے مذہب کو پھیلانے والے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کو تمام عالم کے لیے رحمت بناکر بھیجا گیا، نبیٔ رحمتؐ نے فرمایا: ’’مجھے لعن طعن کے لیے نہیں بلکہ رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔‘‘ اس امن و امان والے مذہب کے ماننے والے مومنوں کے بارے میں حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: ’’حقیقی مومن وہ ہے جس کو مسلم و غیر مسلم دونوں اپنی جان و مال کا امین سمجھیں۔‘‘

سامعینِ کرام!

اللہ تعالیٰ نے مذہب اسلام کو امن و سلامتی اور سکون و شانتی کا گہوارہ بنایا ہے۔ اس کی پوری تاریخ امن و سلامتی کے عملی واقعات سے لبریز ہے، معاہدۂ ’’حِلْفُ الْفُضُول‘‘ ہو یا صلحِ حدیبیہ کی شرطیں، خطبۂ فتحِ مکہ ہو یا حجۃ الوداع کا پیغام، ذِمّیوں اور اہلِ کتاب کے ساتھ اچھا برتاؤ ہو یا قیدیوں کے ساتھ بہتر سلوک، ہر جگہ امن، انسانیت اور محبت کی اعلیٰ مثال ملتی ہے، خاص طور سے عقیدۂ توحید، احترام انسانیت، وحدتِ انسانی، اتفاق و اتحاد، رواداری، اُخُوّت و مُساوات، جہاد فی سبیل اللہ اور عدل و انصاف امن و سلامتی کے وہ جلی عناوین ہیں جن کی وضاحت کے بعد اسلام کا تصورِ امن واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے۔ آئیے تسلسل کے ساتھ ان جلی عناوین پر نظر ڈالتے ہیں۔

حضرات!

عقیدۂ توحید انسانی شرف و عظمت اور امن و سلامتی کا سنگ بنیاد ہے۔ عقیدۂ توحید پر قائم رہنے والے اللہ کے نیک بندے دنیا و آخرت میں امن و سلامتی کے ساتھ رہیں گے اور موت کے وقت ان کے ساتھ امن و سلامتی کا معاملہ کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِيْنَ يَقُوْلُوْنَ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ‘‘ اسی طرح احترام انسانیت کا تصور کیجیے، اللہ تعالی نے انسانوں کو اپنا خلیفہ بنایا اور اس کو کائنات کی سب سے قابلِ احترام ہستی قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا‘‘ یہی نہیں بلکہ خالق کائنات نے ناحق طریقے سے ایک جان کے بھی ضائع ہونے پر اس کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا اور ایک جان کی بھی حفاظت کو ساری انسانیت کی حفاظت بتایا، ’’مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعاً وَ مَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا‘‘ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ وطنیت، قومیت، عصبیت اور لسانیت کی بنیاد پر جب بھی اعلٰی و ادنٰی کا معیار قائم کیا گیا تو دنیا میں بدامنی پھیلی، مذہب اسلام نے ان تمام باتوں کو ختم کرکے فوقیت کا معیار اچھے کردار اور تقوی و پرہیز گاری کو قرار دیا اور فرمایا: ’’يٰٓأَیُّها النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَّ أُنثٰى وَ جَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمْ‘‘ کون نہیں جانتا کہ کسی بھی خطے کے امن و امان کو سب سے بڑا خطرہ نااتفاقی اور اختلاف و انتشار سے ہوتا ہے اور اتفاق و اتحاد امن و امان کا سب سے بڑا ضامن ہے، رسول رحمت ﷺ نے فرمایا: ’’آپس میں اختلاف نہ کیا کرو تم سے پہلے لوگ اختلاف ہی کی وجہ سے تباہ ہو گئے۔‘‘ اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جب کسی سماج میں رواداری کا فقدان ہوتا ہے اور لوگ تنگ نظری کے شکار ہو جاتے ہیں تب بدامنی پھیلتی ہے اور اس کے مقابلے میں جب کسی معاشرے کے اندر انسانی رواداری کو فروغ دیا جاتا ہے تو اطمینان و سکون کا ماحول بنتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: ’’لَا إكْرَاهَ فِيْ الدِّيْن‘‘ یعنی دین میں کوئی زور زبردستی نہیں، اسی طرح اخوت و مساوات اور بھائی چارہ وہ اہم ہتھیار ہیں جن سے سماج میں سر اٹھانے والے فتنۂ و فساد اور بدامنی کو دبایا جاسکتا ہے اور خدمتِ خلق، مہمان نوازی اور اچھے اخلاق کے ذریعہ دشمنوں اور مخالفت کرنے والوں کا دل جیت کر شانتی اور محبت کا ماحول بنایا جا سکتا ہے، اسلامی تاریخ اخوت و مساوات کے عملی واقعات سے بھری ہوئی ہے۔

حضرات گرامی!

کسی بھی خطے میں قیام امن کے لیے جہاد کے فریضے کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا، دشمنوں سے ملک و ملت کی حفاظت کے لیے فتنۂ و فساد اور ظلم و ستم سے انسانوں کو نجات دلانے کے لیے اور مظلوموں کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ نے ظالموں سے لڑنے کا حکم ان الفاظ میں دیا ہے: ’’وَ قَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ‘‘ قیام امن کے لیے انہی کوششوں کا دوسرا نام جہاد ہے، جو ظالموں کے لئے قہرِ الٰہی اور انسانیت کے لیے رحمت و برکت ہے، اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جس سماج میں عدل و انصاف نہ ہو وہ سماج فتنۂ و فساد اور بدامنی کا شکار ہو جاتا ہے، پیغمبرِ امن و امان حضرت محمد ﷺ اپنے و بیگانے، دوست و دشمن، امیر و غریب اور مسلم و غیر مسلم سب کو یکساں اور بلاامتیاز عدل و انصاف کی دعوت دیتے تھے، ایک موقع پر آپ نے فرمایا ’’خدا کی قسم محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹتا‘‘ یہی نہیں بلکہ جو لوگ دارالاسلام میں فساد، ڈاکہ اور قتل و غارت گری کا راستہ اختیار کرکے وہاں کے امن و امان کو پامال کرنا چاہتے ہیں، اسلام ان سے سختی سے نمٹنے کا حکم ان الفاظ میں دیتا ہے: ’’إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِيْنَ يُحَارِبُونَ اللهَ وَ رَسُولَهٗ وَ يَسْعَوْنَ فِيْ الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُّقَتَّلُوْا اَوْ يُصَلَّبُوْا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيْهِمْ وَ أَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوُا مِنَ الْأَرْضِ‘‘ اسلام امن و سلامتی کی راہ ہموار کرنے کے لیے صلح کرنے کی تعلیم دیتا ہے: ’’وَ إِنْ جَنَحُوْا لِلسّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا‘‘ اگر دشمن ہتھیار ڈال دیں اور امان مانگیں تو اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ان پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے: ’’فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَ اَلْقَوْا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلاً‘‘ اگر مشرکین مسلمانوں کی پناہ میں آنا چاہیں تو پروردگار عالم کا حکم یہ ہے کہ ان کو قتل نہ کیا جائے، بلکہ ان کو پناہ دی جائے ’’وَ إِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتّٰى يَسْمَعَ كَلَامَ اللهِ‘‘ یہی نہیں بلکہ نبیٔ رحمتؐ جب بھی کسی قوم کی طرف لشکر بھیجتے تھے تو فوجی کمانڈر کو یہ نصیحت فرماتے تھے کہ پہلے اسلام کی دعوت دینا پھر صلح کی طرف بلانا، اگر اس پر راضی نہ ہوں تو ان سے جہاد کرنا لیکن ان کے بچے، بوڑھے اور عورتوں کو مشق ستم نہ بنانا اور نہ ان کے کھیتوں اور باغوں کو تباہ و برباد کرنا۔

انہی اسلامی قوانین پر عمل کرنے کا نتیجہ تھا کہ انسانی معاشرے سے جرائم کا خاتمہ ہوا، بدعنوانیاں مٹیں، امن و امان کا ماحول بنا اور پیار و محبت کی فضا میں لوگوں کو جینے کا موقع ملا، اس کے برعکس جہاں اللہ کے بنائے ہوئے اسلامی قانون اور اسلامی سزاؤں کو زحمت سمجھ کر نظر انداز کیا گیا اور اس کے مقابلے میں انسانوں کے بنائے ہوئے ناقص قوانین کو نافذ کرنے کی کوشش کی گئی وہاں بدامنی اور بے اطمینانی بڑھی، سکون و اطمینان غارت ہوئے، عالمی سطح پر لوگ اپنے آپ کو غیرمامون اور غیرمحفوظ سمجھنے لگے؛ جبکہ عالمی سلامتی کونسل، اقوام متحدہ، جنیوا چارٹر اور حقوق انسانی کمیشن اپنا کام کر رہے ہیں؛ لیکن بدامنی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے، بے اطمینانی اور بے چینی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔

حاضرین کرام!

یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ جو دین روئے زمین پر امن و سلامتی کو قائم کرنے اور تمام انسانوں کو اخوت و محبت کی ایک لڑی میں پرونے آیا تھا اس کے ماننے والوں کو آج یہ صفائی دینی پڑ رہی ہے کہ اس دین کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ مذہب اسلام کے ماننے والے امن و امان کا مشعل لے کر حقیقی دہشت گردوں کو بے نقاب کرتے جنہوں نے زمانۂ دراز سے دنیا بھر میں دہشت مچا رکھی ہے اور نسلی، قومی اور علاقائی عصبیتوں کو جنم دیا ہے، جن کی پیاس معصوم بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے خون سے بجھتی ہے۔

یہ علم یہ حکمت یہ تدبر یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیمِ مُساوات

امن و سلامتی کے علمبردارو!

اٹھو! اس بلکتی اور سسکتی ہوئی انسانیت کو امن و امان کا راستہ دکھا دو

ورنہ کل گلشن تو کیا دریا تَلک جل جائے گا
جنگلوں کی آگ سے صحرا تلک جل جائے گا

وَ مَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغ


مفید لنکس:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے