Urdu Speech on Azmat e Insani | عظمت انسانی سیرت نبوی ﷺ کے آئینے میں

Keywords

Urdu speech on Azmat e Insani, عظمت انسانی سیرت نبوی ﷺ کے آئینے میں، عظمت انسانی پر تقریر، Azmat e Insani speech in Urdu


Urdu Speech on Azmat e Insani

ماخوذ از: مسابقاتی تقریریں

عظمت انسانی سیرت نبوی ﷺکے آئینے میں

الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَحْدَهٗ، وَالصَّلاةُ وَالسَّلَامُ عَلٰى مَنْ لَّا نَبِيَّ بَعْدَهٗ أَمَّا بَعْدُ!

انسان نے سمجھا ہے محمدؐ کی بدولت
آزادیٔ فطرت بھی، مُساواتِ بشر بھی

عالی مرتبت صدر، حَکَم صاحِبان اور سامعینِ کرام!

موضوعِ تقریر ہے ’’عظمتِ انسانی سیرت نبوی ﷺ کے آئینے میں‘‘

حضرات!

عظمت انسانی کیا ہے؟ کارْل مارْکس کے نزدیک عظمتِ انسانی کا تصور یہ ہے کہ ’’Man is an economic animal‘‘ سوشولوجی کے ماہروں کا خیال ہے کہ ’’Man is a social animal‘‘

لیکن دین اسلام میں انسان کا مقام اس سے بہت بلند ہے، یہی وہ انسان ہے جو خلیفۃ اللہ اور مسجود ملائکہ ہے، اسی نے وہ بارِ امانت اپنے ناتواں کندھے پر اٹھایا، جس کے قبول کرنے سے آسمان و زمین اور پہاڑ بھی عاجز تھے۔

ارض و سماں کہاں تیری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ، کہ جہاں تو سما سکے

عظمت انسانی کے علمبردارو!

اِس جہانِ آب و گِل نے مذاہب و ادیان کے نظامِ حیات کو بھی پرکھا اور انسانوں کے خودساختہ بےروح دستورِ زندگی کا بھی تجربہ کیا، کبھی عالمِ انسانیت شہنشاہیت و ملوکیت کے اژدھوں کا لقمۂ تر بنا، کبھی سرمایہ داروں کی بھٹیاں اس کی مقدر بنیں، کبھی کارْل مارْکس اور لینِن کی روشن کردہ کمیونزم کی چِتا پر اولادِ آدم کی اخوّت و محبت، امن و شانتی اور صلح و آشتی کی مقدس دیوی بھینٹ چڑھادی گئی اور کبھی والیٹر روسیو اور مایشریز کی فردوس نما جہنم میں عدل و انصاف اور برابری و مساوات کو جھونک دیا گیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ بارہا چنگیز کی چنگیزی، ہلاکو کی قہر انگیزی اور ہٹلر کی چیرہ دستی نے انسانیت کا منھ نو چا ہے۔

اَسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں
سو بار ہوئی حضرتِ انساں کی قَبا چاک

عراق، شام، فلسطین، مصر، کوریا، بوسنیا، چیچنیا، کوسووا، افغانستان، اور مشرقی ترکستان کے کربناک حالات اسی شعر کے ترجمان ہیں۔ ۱۹۲۷ء میں مشرقی ترکستان میں ۷۵ ہزار انسان شہید کر دیے گئے، بوسنیا میں ۳ لاکھ انسانوں کا قتل عام ہوا، چیچنیا میں ایک لاکھ انسان جاں بحق ہوئے، کوسووا میں ایک لاکھ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، کوریا میں بیس لاکھ انسانوں کی ہلاکت ہوئی، افغانستان میں ۱۵ لاکھ انسانوں کو بےدردی سے شہید کر دیا گیا، عراق کے ۱۵ لاکھ معصوم بچے لقمۂ اجل ہو گئے، یہی نہیں اسپتالوں پر بم برساکر مریضوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا، جنازوں اور قبرستانوں پر بھی بم باری کی گئی، ایسی صورت حال میں ہیومن رائٹس کمیشن، اقوامِ متحدہ، جنیوا چارٹر اور عالمی سلامتی کونسل انسانوں کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے؛ لیکن حالات ہیں کہ بے قابو ہوتے جارہے ہیں۔ غرضیکہ تاریخِ انسانیت میں ہزاروں، لاکھوں اشخاص انسانی عظمت کو فروغ دینے کے لیے میدان میں آئے؛ لیکن انہی کے ہاتھوں انسانی عظمت پامال ہوئی۔

علامہ سید سلیمان ندویؒ کی تحریر کی روشنی میں دیکھیے۔ ایک طرف شاہانِ عالم کے باشان و شکوہ دربار ہیں تو دوسری طرف سپہ سالاروں کی جنگی جھنکار ہیں، کہیں حکماء اور فلاسفروں کا متین گروہ ہے تو کہیں فاتحین عالم کی پُر جلال صفیں ہیں، جہاں شعراء کی بزمِ رنگیں ہے وہیں دولت مندوں کی نرم گدیاں اور کھنکھناتی تجوریاں ہیں، انسانی تاریخ میں ہزاروں قسم کی زندگیوں کے نمونے ہیں جنہوں نے اپنی تلوار کی نوک سے دنیا کے طبقے الٹ دیے ہیں؛ لیکن کیا انسانی عظمت کو فروغ دینے کے لیے انہوں نے کوئی نمونہ چھوڑا؟ کیا ان کی تلوار میدان جنگ سے آگے بڑھ کر انسانی رفعت کو بڑھانے کے لیے بھی استعمال ہوئی؟ کیا عظمت انسانی کے لیے انہوں نے اونچ نیچ اور چھوٹے بڑے کا فرق ختم کیا؟ انہوں نے بازاروں اور راستوں میں امن و امان قائم کرنا چاہا؛ لیکن دلوں کی بستی میں امن قائم نہ کر سکے، انہوں نے ملک کا نظم و نسق درست کرنے کی کوشش کی؛ لیکن روحوں کی مملکت کا نظم و نسق ان سے درست نہ ہو سکا؛ لیکن رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو دیکھیے کہ آپؐ نے صرف ۲۳ سال کی قلیل مدت میں انسانی عظمت کو فروغ دینے کے لیے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جن سے آج تک دنیائے انسانیت قاصر ہے۔ عظمت انسانی کے عَلَم بردار حضرت محمد ﷺ نے انسانی دنیا کو یہ پیغام دیا کہ انسانیت چمنستانِ کائنات کا ایک پھول نہیں ہے بلکہ گلدستۂ کائنات ہے۔ اگر باغِ انسانیت کے کسی ایک پھول کو بھی کسی نے روندا تو وہ پوری انسانیت کا قاتل ہے اور ایک جان کی بھی حفاظت کرنے والا پوری انسانیت کا محافظ ہے۔ ’’مَنْ قَتَلَ نَفْساً، بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعاً، وَ مَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعاً‘‘

سامعینِ بزم!

ذرا غور فرمائیے! وہی مکہ جس کے باشندے جنگ کی تلوار لیے آپ کے مقابلے میں کھڑے تھے، ان پر قحط کا زمانہ آتا ہے تو آپ ﷺ ان کے لیے رَسَد کا انتظام کراتے ہیں، بدر کے بندھے ہوئے قیدیوں کی کراہیں رحمۃ للعالمین کے گوشِ مبارک تک پہنچتی ہیں تو آپ کی نیند اڑ جاتی ہے، جب تک ان کے بندھن ڈھیلے نہیں ہو جاتے آپ کو سکون نہیں ملتا ہے، جَسَدِ مبارک پر کوڑا پھینکنے والی عورت جب بیمار ہو جاتی ہے تو آپ ﷺ اس کی عیادت کو جاتے ہیں اور انسانی عظمت کو فروغ دینے کا ایک اعلٰی نمونہ پیش کرتے ہیں، حَجَّۃ الوَداع کے موقع پر انسانی جان و مال کے تحفظ کے لیے زبانِ رسالت یوں گویا ہوئی: ’’إِنَّ دِمَائَكُمْ وَ أَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ‘‘ آپؐ نے غلاموں اور ذِمِّیوں کو صحیح حقوق دیے، ان کو ظلم کے خلاف احتجاج کرنے کا حق دیا، ظالموں کو سخت وعیدیں سنائیں، آپؐ نے حقوقِ انسانی کا وہ معیار قائم کیا جس کی بنیادوں پر عظمتِ انسان کا شیش محل تیار ہوا اور عزتِ انسانی کا وہ درس دیا جس سے دنیا ناآشنا تھی۔ سچ پوچھیے تو سیرتِ نبوی نے عظمتِ انسانی کو پیغامِ نبوت کا مِحْوَر قرار دیا، اسی کا نتیجہ تھا کہ معاشرہ کے ہر طبقہ اور زندگی کے ہر شعبہ میں جہاں انسانیت دم توڑ چکی تھی، آپؐ کی کاوشوں سے اس میں جان پڑ گئی۔

مگر افسوس صد افسوس! آج انسانیت ایک بار پھر وہیں پہنچ چکی ہے جہاں سے محسنِ انسانیت ﷺ نے اسے نکالا تھا، درد و کرب میں ڈوبی صدائے وقت ہمارے کانوں سے ٹکرا رہی ہے، چاہے وہ مادرِ فلسطین کی آہ و بکا ہو یا مصر کی داستانِ دلدوز ہو، چاہے عراق و افغانستان کے مظلوموں کی سسکیاں ہوں یا بوسنیا و صومالیہ کے بھوکے بچوں کی ہچکیاں، غرضیکہ آج پوری انسانیت ایک بار پھر ہلاکت و تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور کسی مسیحا اور چارہ گر کی منتظر ہے، ایسے نازک وقت میں سیرتِ نبوی ﷺ آواز دے رہی ہے کہ اے دنیا کے گمراہ انسانو! اگر تم کامیابی چاہتے ہو اور حق و صداقت کی پُر بہار فضاؤں میں سانس لینا چاہتے ہو تو تمہیں سیرتِ نبویؐ کے آئینے میں اپنے مسائل کی گتھیاں سلجھانی پڑیں گی، سیرت نبوی کے دواخانے سے نسخۂ شفا حاصل کرنا ہوگا، حیاتِ نبوی کے چشمۂ شافی سے آبِ حیات لے کر اپنی کشتِ ویراں کو سیراب کرنا ہوگا، تب جاکر زندگی کی سوکھی کھیتیاں لہلہا اٹھیں گی اور عظمت انسانی کے پھول کھلیں گے۔

تڑپتی کیوں ہے اے بلبل کمال اتنا تو پیدا کر
تیرا اَشک جس جا گر پڑے گلزار ہو جائے

وَ مَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ


Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے