زندگی گزارنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کتنے دوست ہوں؟
(طالب علم کا سوال، استاذ کا بہترین جواب!)
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک طالب علم نے اپنے استاد سے پوچھا، استاد جی زندگی گزارنے کے لیے ایک شخص کے زیادہ سے زیادہ کتنے دوست ہوں تو اس کے لیے وہ کافی ہوں گے؟ ایک، دو، تین یا بے شمار؟
استاد نے کہا اچھا میں تمھیں اس کا جواب بعد میں دیتا ہوں، پہلے تم ایسا کرو کہ وہ سامنے سیب کے باغ میں جو سب سے اونچا درخت ہے، اس درخت کی چوٹی پر سے سیب اتار کر لاؤ، شاگرد نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح درخت کی چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاؤں، مگر ناکام ہی رہا، وہ واپس آیا اور کہنے لگا، استاد جی وہاں سے سیب توڑنا میرے لیے ناممکن ہے، استاد نے پوچھا کیا تمھارا کوئی دوست نہیں ہے؟ جس سے تم مدد حاصل کر سکو.
وہ چھوٹا لڑکا استاد کی بات سمجھ گیا، اور فوراً جاکر اپنے ایک دوست کو لے آیا، اس دوست کو درخت کے نیچے کھڑا کرکے خود اس کے کندھوں پر کھڑا ہوکر جب اس طالب علم نے سیب اتارنے کی کوشش کی تو، دیکھا کہ چوٹی والے سیب ابھی بھی پہنچ سے بہت دور تھے، استاد نے دوبارہ پوچھا کیا تمھارا ایک ہی دوست ہے؟ اس شاگرد لڑکے نے جواب دیا، نہیں میرے تو بہت زیادہ دوست ہیں، میں ابھی جاکر سب کو بلا کر لاتا ہوں۔
یوں وہ لڑکا گیا اور اپنے تمام دوستوں کو اکٹھا کرکے وہاں لے آیا، اب تمام دوستوں نے مینار کی شکل میں ایک دوسرے کے ہاتھوں اور کندھوں پر کھڑا ہوکر جیسے ہی سیب اتارنے کی کوشش کی تو سب سے نیچے والے دوست بوجھ زیادہ ہونے کے باعث نیچے بیٹھ گئے، جس سے وہ تمام دوست ایک دوسرے کے اوپر گر گئے، اور یوں اس بار بھی سیب توڑنا لاحاصل ہی رہا۔
استاد نے شاگرد کو بلاکر پوچھا میرا خیال ہے اب تمہیں سمجھ آگئی ہوگی کہ زندگی گزارنے کے لیے کتنے دوست بنانا ضروری ہیں۔ شاگرد نے پرجوش ہوکر کہا، جی استاد محترم مجھے سمجھ آگئی ہے، کہ زندگی ایک دوسرے کی مدد کا نام ہے جو زیادہ دوستوں کے بغیر ناممکن ہے۔
استاد نے شاگرد کے جواب سے مایوس ہوکر کہا، میرے بیٹے زندگی میں زیادہ دوستوں کی بجائے اس ایک دوست کا ہونا بے حد ضروری ہے جو تمہیں بتا سکے کہ جہاں خود سے پہنچنا مشکل ہو، یا خود سے نہ پہنچا جاسکتا ہو، وہاں سیڑھی لگا لینی چاہیے۔
(انٹرنیٹ سے لی گئی انگریزی کہانی کا اردو ترجمہ مصنف اور کتاب نامعلوم.)
توقیر بُھملہ