اونٹ کے بچہ کے سوالات اور کوئلہ کا بھاؤ – ایک سبق آموز انگریزی کہانی

اونٹ کے بچہ کے سوالات اور کوئلہ کا بھاؤ

ایک سبق آموز انگریزی کہانی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چڑیا گھر میں گھنے سایہ دار درخت کے نیچے لیٹے ہوئے اونٹ سے اس کے بچے نے پوچھا: ابا! ہماری پشت پر کوہان کیوں ہے؟ اونٹ نے جواب دیا: بیٹا! صحرا میں سفر کرتے ہوئے میلوں دور تک پانی کا نام و نشان تک نہیں ہوتا، ایسے میں قدرت نے ہمارے اندر ایک اضافی خانہ بنا دیا ہے، جس کے ذریعے ہم کئی روز تک صحرا کی بھوک اور پیاس کو برداشت کرسکتے ہیں۔

اونٹ کے بچے نے حیران ہوتے ہوئے چند لمحے کچھ سوچنے کے بعد کہا: ٹھیک ہے، ابا یہ بتاؤ کہ، ہمارے پاؤں گول اور ٹانگیں لمبی کیوں ہوتی ہیں؟ اونٹ نے بچے کو سمجھاتے ہوئے کہا: ہمیں لمبے عرصے تک صحرا میں سفر کرنا پڑتا ہے، جس کے لیے ہمارے پاؤں کی گول ساخت اور لمبی ٹانگیں ہماری مددگار ہوتی ہیں، وگرنہ ہم چلتے چلتے ریت میں دھنس جائیں تو نکلنا دشوار ہوجائے گا۔

اونٹ کا بچہ سمجھنے والے انداز میں گردن ہلاتے ہوئے کہنے لگا: ابا ہماری آنکھوں کے اوپر لمبی لمبی پلکیں کیوں ہیں؟ مجھے تو اکثر ان کی وجہ سے دیکھنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ اونٹ نے جواب دیا، بیٹا صحرا میں ہر وقت ریت اور مٹی سے بھری ہوئی ہوائیں چلتی ہیں، یہ لمبی پلکیں، ریت اور مٹی سے ہماری حفاظت کرتی ہیں۔

اونٹ کا بچہ یہ سب سن کر بڑا حیران ہوا، مزید سوچتے ہوئے کہنے لگا، اچھا ابا بتاؤ، ہمارے نتھنے اتنے بڑے کیوں ہیں؟ اونٹ نے جواب دیا کہ، صحرا کی گرمی میں جب ہمارے جسم کی چربی پگھلنے لگتی ہے اور جسم کے اندر کا درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے، تو بڑے نتھنوں کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان کے ذریعے ہم زیادہ مقدار میں حرارت خارج کرکے اپنے جسم کے درجہ حرارت کو معتدل رکھ سکتے ہیں۔

اونٹ کے بچے نے جب اپنے تمام سوالات کے جوابات جان لیے تو اپنے باپ سے کہنے لگا، جب ہماری جسمانی ساخت اور جسم کا ہر عضو صحرا میں رہنے کے لیے بنا ہوا ہے، تو مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ، پھر ہم یہاں چڑیا گھر میں کیا کررہے ہیں؟ اس بات کا جواب اونٹ کے باپ کے پاس نہیں تھا۔

آپ چاہے جتنے بڑے مہان اور مہا کلاکار کیوں نہ ہوں، جب تک آپ اپنی قابلیت اور صلاحیت کے مطابق درست مقام پر نہ ہوں، تب تک علم، تجربہ، مہارت اور ہنر سب بیکار ہے۔

انٹرنیٹ سے لی گئی انگریزی کہانی کا اردو ترجمہ ( مصنف نامعلوم)

’’ہیرا جب تک جوہری کے ہاتھوں میں نہ پہنچے تب تک وہ کوئلے کے بھاؤ بکتا ہے۔‘‘

توقیر بُھملہ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے