ڈاکٹر، مریض اور فیس

ڈاکٹر، مریض اور فیس

ڈاکٹر صاحب جلدی سے آئیے، ایک ایمرجنسی کیس ہے۔ ڈاکٹر سرمد کا اسسٹنٹ بدحواسی کےعالم میں دروازہ کھول کر ان کےآفس میں داخل ہوا۔

تو اس میں بدحواس ہونے کی کیا بات ہے؟ کیس تو آتے ہی رہتے ہیں۔

سوری سر! وہ دراصل مریض کی حالت بہت خطرے میں ہے اسسٹنٹ نے وضاحت پیش کرنا چاہی۔

فیس وصول کرلی؟ ڈاکٹر نے سوال کیا وہ سر دراصل وہ۔۔۔۔۔ ایک ایکسیڈنٹ کیس ہے، نوجوان سڑک پہ لاوارث پڑا تھا تو کچھ لوگ اسے یہاں پہنچا گئے۔ لواحقین آئیں گے تو فیس وصول کرلوں گا۔ اسسٹنٹ نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔

دفع ہوجاؤ یو ایڈیٹ ڈیم فول، تمہیں پتا نہیں میں فیس لیے بغیر آپریشن نہیں کرتا۔ بری طرح سے چلاتے ہوئے ڈاکٹر سرمد کہیں سے بھی پڑھے لکھے انسان نہیں لگ رہے تھے۔ پتا نہیں کیا سمجھ رکھا ہے، ڈاکٹر سرمد اب مفتوں کا علاج کرے گا۔۔۔ ہنہہہ ڈاکٹر صاحب سر جھٹکتے ہوئے گویا ہوئے۔

اسسٹنٹ جاچکا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا موڈ بھی بگڑ چکا تھا، میز سے گاڑی کی چابی اٹھاکر وہ باہر چل دیے۔ پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد گھر پہنچے تو گھرمیں کوئی نہیں تھا، ان کی مسز کسی پارٹی میں شرکت کرنے گئی تھیں اور اکلوتا بیٹا عاطف بھی غائب تھا۔ ملازم کو چائے کا کہہ کر وہ لان میں آکر بیٹھے ہی تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔

ہیلو، ڈاکٹر سرمد بات کررہےہیں؟ جی! آپ کون؟ میں انسپکٹر شہزاد بات کررہا ہوں، آپ جنرل ہسپتال تشریف لائیے جلدی کیوں خیریت؟ آپ بس آجائیے بھاگم بھاگ ڈاکٹر صاحب ہسپتال پہنچے، کوریڈور میں موجود ایک ملازم انہیں اندر لے گیا، سردخانے میں وہی انسپکٹر موجود تھا جس نے ان کو فون کیا تھا۔

ڈاکٹر صاحب مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس آپ کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے، انہیں پہچانتے ہیں؟ انسپکٹر نے بات کرتے ہوئے ایک لاش کے اوپر سے کپڑا ہٹایا، لاش پہ سے کپڑے کا ہٹنا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو محسوس ہوا جیسے ان کے سر پہ آسمان گرپڑا ہو، وہ لاش ان کے اکلوتے بیٹے عاطف کی تھی۔ اس لڑکے کو پہلےالشافی ہسپتال لے جایا گیا تھا لیکن وہاں ڈاکٹر کی بے توجہی اور بروقت طبی امداد نا ملنے کے باعث اس کی وفات ہوگئی، وہاں موجود ڈاکٹر نے فیس کے بغیر آپریشن کرنے سے انکار کردیا تھا۔

انسپکٹر تفصیلات بتاتا جارہا تھا لیکن ڈاکٹر صاحب اپنے ہی خیالوں میں گم تھے، ان کے ذہن میں یہ جملہ ہتھوڑے کی مانند لگ رہا تھا اسے الشافی ہسپتال لے جایا گیا تھا لیکن وہاں ڈاکٹر نے فیس کے بغیر آپریشن کرنے سے انکار کردیا ڈاکٹر سرمد کے ہسپتال کا نام الشافی ہسپتال تھا۔

یہ پیغام ان تمام ڈاکٹرز کے لیے ہے جو انسانیت سے زیادہ مال و زر کو ترجیح دیتے ہیں۔

منقول

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے