طلبہ، اساتذہ اور ذمہ داران مدارس کو یہ مضمون ضرور پڑھنا چاہیے

طلبہ، اساتذہ اور ذمہ داران مدارس کو یہ مضمون ضرور پڑھنا چاہیے

*طلبۂ مدارس کی تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ضروری ہے!*

قاضی محمد فیاض عالم قاسمی
8080697348

مدارس میں جو طلبہ پڑھتے ہیں ان کی عمر عام طور پر دس سے پچیس سال ہوتی ہے۔ یہ عمر زندگی کی اہم عمر مانی جاتی ہے، اسی میں انسان بنتا یا بگڑتا ہے۔ بچوں کی تربیت کی مختلف پہلو ہیں؛ ان کا لحاظ کیا جانا ضروری ہے: تعلیمی تربیت، روحانی تربیت، اخلاقی تربیت، جسمانی تربیت وغیرہ۔ ذیل میں ان کی وضاحت کی جاتی ہے۔

تعلیمی تربیت

مدارس کی اصل توجہ تعلیم پر ہونی چاہیے، کل چندے کا پچھترفیصد حصہ تعلیم کے مد میں خرچ ہونا چاہیے۔ کتب خانہ ہو جو درسی وغیر درسی کتابوں پر مشتمل ہو، پرانے زمانے کی چھپی ہوئی درسی کتابوں کے بجائے نئی کمپوٹرائزڈ طبع شدہ کتابیں ہوں۔ کتب خانہ میں عربی شروحات ہوں، اردو شروحات نہ ہوں، کیوں کہ مشاہدہ ہے کہ ان کتابوں سے طلبہ کی صلاحیت نہیں بنتی ہے۔ بعض طلبہ اردو شروحات پر مکمل طور پر منحصر ہوتے ہیں، اور درسگاہ سے غیر حاضر رہتے ہیں، ایسے طلبہ بعد میں بہت پچھتاتے ہیں۔ لائبریری میں ڈیجیٹل لائبریری کا بھی گوشہ ہو۔

درسگاہ کشادہ اور ہوادار ہو، کتاب رکھنے کے لیے الماریاں اور تپائیاں ہوں، طلبہ زیادہ ہوں تو مائک اور لاؤڈاسپیکر بھی ہو، درسگاہ میں بلیک بورڈ اور مارکر پین بھی ہو، پروجیکٹر کا نظم بھی ہو۔ اساتذہ مکمل تیاری کرکے درس دیں، سبق کوآسان زبان میں سمجھائیں، بوقت ضرورت بلیک بورڈ کا استعمال کریں، پروجیکٹر وغیرہ کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ استاذ کو جس فن سے مناسبت ہے ان کو وہی کتاب پڑھانے کے لیے دی جائے۔ طلبہ کے لیے اسباق کی پابندی کا نظم بنایا جائے، گھنٹوں کے بیچ میں وقفہ بھی رکھا جائے؛ تاکہ بچے پانی، چائے وغیرہ پی کر چست ہوجائیں، استنجاء وغیرہ سے فارغ ہوجائیں، مذاکرہ و تکرار بھی اساتذہ کی نگرانی میں ہو۔ طلبہ کو محنت اور لگن کی گاہ بگاہ ترغیب دی جائے، کسی ماہر استاذ، اللہ والے بزرگ، معروف عالم دین وغیرہ کو بلاکر مہینے میں کم سے کم ایک بار بیان رکھیں، ماہر اساتذۂ کرام کی خدمات حاصل کرکے ان کے محاضرات کا نظم کیا جائے، اس سے طلبہ میں غیر شعوری طور پر لکھنے پڑھنے کا شوق پروان چڑھے گا۔

تحریری اور تقریری صلاحیت کو پروان چڑھانے کے لیے تحریری مشق، مضمون نگاری، اور تقریر کی مشق بھی کرائی جائے۔ بعض مدرسوں میں تقریر پر اتنی توجہ دی جاتی ہے کہ طلبہ پیشہ ور مقرر بن جاتے ہیں، علمی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے غلط سلط واقعات بیان کرکے عوام کی توجہ بٹورتے ہیں۔ بعض مدرسوں میں شعر و شاعری کرنے اور نعت گنگنانے پر اتنی توجہ دی جاتی ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مدار س کا یہی مقصد ہے۔ اس طرز عمل کو بدلنا چاہیے۔ طلبہ کے لیے کمپیوٹرسکھانے کا بھی نطم ہو، کم از کم ان پیج، ایم ایس ورڈ کو مکمل طور پرسکھانا چاہیے، کیوں کہ عام طور پر علماء کو زندگی میں ان ہی دونوں سوفٹ ویر کی ضرورت زیادہ پڑتی ہے۔

روحانی تربیت

روحانی طاقت کا حصول ہی اصل علم ہے، ایسا علم جس سے معرفت خداوندی حاصل ہو، شریعت سے محبت ہو، سنت سے قلبی لگاؤ ہو، اس لیے ضروری ہے سارے اساتذۂ کرام صاحبِ نسبت ہوں، اساتذہ میں جو صاحب خلافت ہوں انھیں چاہئے کہ وہ روزانہ یا کم سے کم ہفتہ میں ایک مرتبہ ضرور طلبہ کی اصلاح کے لئے ذکر وغیرہ کا حلقہ لگائے۔ اپنے شاگردوں کو بیعت کرائے۔ اگر اساتذہ میں کوئی ایسانہ ہو تو مہینے میں ایک بار کسی اللہ والے کو بلاکر اصلاحی بیان کرایا جائے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ طاقتور مؤمن کمزور مؤمن سے بہتر ہے۔ (صحیح مسلم:٢۶۶٤) یہاں پر طاقت سے روحانی طاقت مراد ہے۔ روحانی طاقت کا حصول ذکر و اذکار سے ہوگا۔

اخلاقی تربیت

اخلاقی تربیت کی بڑی اہمیت ہے، اگر انسان کے پاس علم ہو لیکن اچھے اخلاق نہ ہوں، تو اس علم کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوگی۔ اس لئے مدارس کے طلبہ کی اخلاقی تربیت نہایت ہی ضروری ہے۔ اخلاقی برائیوں سے انہیں دور رکھنا ان کی نگرانی کرنا، گاہے بگاہے جائزہ لینا ضروری ہے۔ جب چند طلبہ ایک ساتھ رہتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں، تو ان کے درمیان نوک جھونک ہونا فطری ہے۔ اس لئے اجتماعی ماحول میں کس طرح زندگی گزاری جائے طلبہ کو معلوم ہونا چاہئے۔

بعض دفعہ طلبہ میں جھگڑا اور لڑائی کی نوبت آجاتی ہے، گروپ بندی ہوجاتی ہے، اس سے بچنا اور دوسروں کو بچانا ضروری ہے۔ گالم گلوچ، جھوٹ، غیبت، نماز چھوڑنا، یک مشت سے کم داڑھی کاٹنا یا تراشوانا، فلمی اسٹاروں جیسے بال رکھنا، رنگین شوخ والا کپڑے پہننا، سنیما دیکھنا، کرکٹ میچ دیکھنا، میلہ، قوالی، عرس وغیرہ میں جانا، سیاست میں حصہ لینا، ایک استاذ کی شکایت دوسرے سے کرنا، بار بار گھر جانا، ادھر ادھر بازاروں میں گھومنا وغیرہ اخلاقی برائیاں ہیں۔ ان برائیوں سے طلبہ کو بچنا چاہئے اور اساتذۂ کرام کو سخت نگرانی کرنی چاہئے۔ اگر کوئی طالب علم ان برائیوں میں ملوث پایا جائے تو پہلی بار سمجھایا جائے اگر دوسری بار بھی وہی حرکت کرے تو اخراج کردیا جائے۔ کیوں کہ ایک طالب علم کی وجہ سے دوسرے طلبہ کو خراب نہیں کیا جا سکتا ہے۔

*کچھ برائیاں ایسی بھی ہیں جو اساتذہ میں پائی جاتی ہیں۔ ان کا ذکر بھی یہاں مفید معلوم ہوتا ہے۔ بعض جوان اساتذہ چھوٹے بچوں سے جسمانی خدمت لیتے ہیں، سر اور پیر دَبواتے ہیں، جو مناسب نہیں ہے، اسی طرح بعض دفعہ بچوں سے جوکھم بھرا کام بھی لیا جاتا ہے، بچوں سے کپڑے دھلوائے جاتے ہیں، اپنے گھر کے لئے مارکیٹ سے سبزی، دال چاول وغیرہ منگوایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ غیر اخلاقی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر قانونی بھی ہے۔*

*بعض مدارس میں طلبہ کو چندہ کے لئے بھیجا جاتا ہے جو بہر حال مناسب نہیں ہے، کیوں کہ والدین نے ان بچوں کو چندہ کے لئے نہیں؛ بلکہ تعلیم و تربیت کے لیے آپ کے سپرد کیا ہے۔ نیز اخلاقی لحاظ سے بھی یہ مناسب نہیں ہے، اس سے طلبہ میں مال کی محبت بڑھے گی، مدرسہ کی طرف سے کمیشن یا انعام کے طور پر کچھ دینے سے لالچ بھی بڑھ جائے گا۔*

گاؤں دیہات کے مدرسوں میں گاؤں کے لوگ بچوں کی دعوت کرتے ہیں، بچے ان کے گھر میں جاکر کھانا کھاتے ہیں، کم بچے ہوں تو ٹھیک ہے لیکن اگر سو دو سو بچے ہوں تو ان بڑی تعداد میں گاؤں والوں کا اپنے گھر بلانا اور مدرسہ والوں کا گھروں پر بھیجنا مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ وہ پیسہ مدرسہ میں جمع کردیں اور یہیں کھانے کا انتظام کرلیا جائے۔ یا وہ خود ہی راشن وغیرہ خرید کر لاکر مدرسہ میں دیدیں۔ بعض دفعہ کوئی جانور مدرسہ میں دیتا ہے تو اس کو ذبح کرنے کاٹنے اور پکانے کی ذمہ داری بچوں کی سمجھی جاتی ہے، سال میں ایک دو بار ایسا ہو تو کوئی حرج نہیں، لیکن اگر مہینے میں تین چار بار ایسا ہو تو ظاہر بات ہے کہ اس سے طلبہ کی تعلیم کا نقصان ہوگا۔ نیز اخلاقی لحاظ سے طلبہ پر اچھا اثر نہیں پڑے گا، ان کا ذہن کھانے پینے کی اشیاء کی طرف لگا رہے گا کہ آج کیا بنا ہے، اور جانور آرہا ہے یا نہیں؟

جسمانی تربیت

جسمانی تربیت کا مفہوم یہ ہے کہ طلبہ کو اچھی خوراک کھلائی جائے، تاکہ طلبہ تندرست رہیں، جسمانی کمزوری نہ ہو اور ان کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما بہتر طور پر ہوسکے۔اوپر جو حدیث بیان کی گئی کہ طاقتورمؤمن، کمزور مؤمن سے بہتر ہے تو اگر طاقت کے مفہوم کو وسیع کیا جائے تو اس سے جسمانی طاقت بھی مراد لی جا سکتی ہے۔

بعض مدارس میں صرف دال اور گوشت پر اکتفاء کیا جاتا ہے، اس کا نقصان یہ ہوتاہے کہ گرم اشیاء کھانے کی وجہ سے طلبہ بیماریوں میں مبتلاء ہو جاتے ہیں، گیس، دھات، احتلام و جریان، داد، کھجلی، قبض، چیچک، جیونڈس، بینائی کی کمزوری وغیرہ جیسی بیماریاں مدرسے کے بچوں میں عام ہیں۔ اس لئے طلبہ کو سبزی اور ٹھنڈی ترکاریاں بھی کھلانا چاہئے۔ اسی طرح طلبہ کی جسمانی ورزش کے لئے کراٹے، پہلوانی، تیراکی وغیرہ کا بھی انتظام ہونا چاہئے۔ہر مدرسہ میں ہرا بھرا چمن بھی ہو؛ تاکہ بچے چہل قدمی کرسکیں، ان کو تروتازہ ہوا مل سکے، جس سے طلبہ ہشاش بشاش رہیں گے، سانس اور آنکھوں کی بیماریوں سے محفوظ رہیں گے۔ فقط

(مضمون نگار دارالقضاء آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ناگپاڑہ کے قاضی شریعت ہیں۔)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے