اردگان کی فتح پر ہم کیوں خوش ہیں؟

اردگان کی فتح پر ہم کیوں خوش ہیں؟

ایک تو اس لیے کہ اس کی فتح پر مغرب ناخوش ہے۔ یقین نہ ہو، تو بی بی سی، سی این این وغیرہ پر مسلسل جاری ماتم دیکھ لیجیے دوسری وجہ جاننے کےلیے آیا صوفیا کا منارہ دیکھ لیجیے۔

استنبول میں جس جگہ بھی جس طرف بھی رخ کریں، آپ کو مسجد اپنے گنبد اور مناروں سمیت نظر آتی ہے۔ یہ گنبد اور منارے کئی صدیوں سے یورپی مسیحی طاقتوں کے سامنے مسلمانوں کے سیاسی اور فوجی غلبے کی علامت بن کر کھڑے رہے ہیں۔

استنبول، جو پہلے قسطنطینیہ تھا، اگر ایک طرف مشرقی مسیحی کلیساؤں کا دل تھا تو دوسری طرف رومی بازنطینی سلطنت کا بھی مرکز تھا۔ جب 1453ء میں محمد الفاتح نے اسے فتح کیا تو دیگر کاموں کے علاوہ یہ ہوا کہ آیا صوفیا، جس کی حیثیت مشرقی کلیسا کے لیے وہی تھی جو مغربی کلیسا کے لیے ویٹیکن کی ہے، مسجد میں تبدیل ہوگئی۔ پھر سنان نے، جو عثمانی خلافت کا تاریخی آرکیٹیکٹ تھا، یہاں بھی منارہ کھڑا کیا۔ وہ منارہ آج بھی موجود ہے۔ مصطفی کمال اتاترک نے اس مسجد کو میوزیم میں تبدیل کرلیا لیکن کچھ عرصہ قبل یہاں پھر سے اذان شروع ہوگئی ہے اور ایک مختصر حصے میں نماز بھی ہوتی ہے۔ کیا عجیب منظر ہوتا ہے جب پہلے سلطان احمد کی نیلی مسجد سے اذان بلند ہوتی ہے اور پھر آیا صوفیا سے اس کی گونج آتی ہے۔

آیا صوفیا کا منارہ بالکل کسی نیزے کی طرح نظر آتا ہے جو دشمن کے سینے میں پیوست محسوس ہوتا ہے۔ یہاں آکر سمجھ میں یہ بات آئی کہ کیوں سویٹزرلینڈ جیسے ملک میں، جو دو سو سال سے غیر جانبداری کا دعوی کررہا ہے، باقاعدہ ریفرنڈم کے ذریعے قوم کی اکثریت نے فیصلہ کیا کہ یہاں مساجد میں منارہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، خواہ گرجا گھروں کے اوپر صلیب اور دیگر مذہبی علامات موجود رہیں۔ سیکولر غیر جانبداری کی حقیقت بس یہی ہے اور اس حقیقت سے پردہ آیا صوفیا کا منارہ اٹھاتا ہے جو آج بھی نام نہاد غیر جانبداروں کے دلوں میں نیزے کی طرح پیوست ہے۔

واضح رہے کہ سویٹزرلینڈ اور ترکی دونوں کا جھنڈا سرخ ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ ایک میں سفید صلیب ہے اور دوسرے میں سفید ہلال! اور ہاں، صلیب دوسرے بہت سے ممالک بالخصوص برطانیہ کے جھنڈے پر بھی ہے۔ اور یہی برطانوی صلیب آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے جھنڈے پر بھی ہے۔ اور ہاں، برطانیہ کی ملکہ صرف برطانیہ یا آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ہی کی ملکہ نہیں بلکہ چرچ آف انگلینڈ کی سربراہ بھی ہے، یعنی چرچ آف انگلینڈ کے ماننے والے مسیحیوں کے لیے اس کی حیثیت ”خلیفہ‘‘ کی ہے۔ اور ہاں، نام نہاد غیر جانبدار بین الاقوامی قانون میں ”انسانیت کے خلاف جرائم‘‘ کے لیے اصل اصطلاح ”مسیحیت کے خلاف جرائم” کی تھی۔

تحریر: ڈاکٹر محمد مشتاق

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے