درس قرآن (۱) سورۃ الفاتحہ، آیت: ۱۔۲۔۳
سورۂ فاتحہ مکیہ
یہ سورت ایک رکوع اور سات آیات پر مشتمل ہے۔
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں
أعوذُ باللّٰهِ منَ الشیطانِ الرجیم – بسمِ اللهِ الرحمٰنِ الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنْ
لفظ بہ لفظ ترجمہ: اَلْحَمْدُ تمام تعریفیں۔ لِلّٰهِ اللہ ہی کے لیے۔ رَبِّ (جو) پروردگار ہے۔ اَلْعَالَمِیْنَ سارے جہانوں کا۔ الرَّحْمٰنِ نہایت مہربان۔ الرَّحِیْمِ بڑا رحم کرنے والا ہے۔ مَالِکِ مالک ہے۔ یَوْمِ الدِّیْنِ روز جزا کا۔
ترجمہ: سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے خاص ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ بہت بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ روز جزا کا مالک ہے۔
تشریح: ان تین آیات میں تین باتیں بیان کی گئی ہیں:
۱۔ دونوں جہاں کے رب ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔
۲۔ جو رب ذوالجلال نہایت ہی مہربان اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔
۳۔ وہ روز جزا کا مالک ہے۔
جتنی بھی تعریفیں روزِ اول سے لے کر آج تک ہوئی ہیں اور صبحِ قیامت تک جتنی بھی تعریفیں ہوں گی وہ ساری تعریفیں در اصل اس ذات اقدس کے لیے ہیں جو صرف انسانوں اور جنات ہی کا نہیں بلکہ پورے عالموں کا پالنہار ہے۔ انس و جن، چرند و پرند، تمام حیوانات، جمادات و نباتات اور برّی و بحری ساری مخلوقات کا وہ پروردگار ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفتوں میں ایک صفت حمید بھی ہے جس کی تعریف کی گئی ہے جو خوبیوں والا اور تعریف کے قابل ذات ہے۔
سورۂ نساء کی آیت نمبر ۱۳۱ میں ہے ’’وَ کَانَ اللهُ غَنِیّاً حَمِیْداً‘‘ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور تعریف کیا گیا ہے۔
حضرت مقاتل بن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ عالَم اسّی ہزار ہیں۔ چالیس ہزار عالَم خشکی میں، چالیس ہزار سمندر میں۔ حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عالموں کی تعداد اٹھارہ ہزار ہے۔ حضرت کعب الاحبار نے یوں فرمایا کہ عالَموں کی تعداد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔
ساری مخلوق کو زندہ کرنے والے بھی اللہ تعالیٰ ہیں اور زندہ رکھنے والے بھی اللہ تعالیٰ ہی ہیں۔ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۱۳۱ میں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے رب العالمین کا جملہ استعمال ہوا ہے: ’’قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔‘‘
اللہ تعالی رحمان ہیں یعنی بہت بڑے مہربان ہیں۔ اتنے بڑے مہربان کہ یہ لفظ رحمان اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کے لیے استعمال کرنا درست نہیں۔ سورۂ رحمٰن کا آغاز ہی الرحمٰن، علَّمَ الْقُرْآنَ سے کیا گیا، جس سورت میں رب ذوالجلال کی بیسیوں نعمتوں کا تذکرہ ہے۔ اس سورت کو اس کی عظیم صفت رحمٰن ہی سے شروع کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ رحیم بھی ہیں۔ یعنی نہایت رحم والے ہیں۔ رحیم کا لفظ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی ﷺ کے لیے بھی استعمال فرمایا: ’’بالمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘ کہ آپ ﷺ ایمان والوں کے ساتھ نرم دل اور نہایت رحم دل ہیں۔
تیسری بات یہ کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی حکومت و سلطنت رہتی دنیا پر قائم ہے اسی طرح اس کی بادشاہت، سلطنت اور اس کا دبدبہ اس دن بھی رہے گا جس دن میزانِ عدل قائم ہوگی۔ اور ہر شخص اپنے عمل کا نتیجہ اور انجام پائے گا۔ جس دن ہر اچھے عمل کی جزاء اور ہر برے عمل کی سزا دی جائے گی۔ سورۂ آل عمران کی آیت نمبر ۲۶ میں بھی رب ذوالجلال کے لیے مالک کا لفظ استعمال کیا گیا ہے: ’’قُلِ اللّٰھُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ‘‘ کہہ دیجیے کہ اے تمام جہاں کے مالک۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس دن اپنی حفاظت میں رکھے اور کامیابی و کامرانی عطا فرمائے۔ آمین (جاری)
(ماخوذ از: عام فہم درس قرآن ، جلد اول، مؤلف: حضرت مولانا غیاث احمد رشادی صاحب)