درس قرآن نمبر (۵) سورة البقرة، آیت: ۲ (ب)

درس قرآن نمبر (۵) سورة البقرة، آیت: ۲ (ب)

قرآن مجید مثالی ہدایت نامہ ہے

أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ ـ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

هُدىً لِّلْمُتَّقِيْنَ

لفظ بہ لفظ ترجمہ: هُدىً ہدایت کا ذریعہ ہے لِّلْمُتَّقِيْنَ متقیوں کے لیے۔

ترجمہ: ہدایت ہے ڈرنے والوں کے لیے۔

تشریح: یہ سورۂ بقرہ کی دوسری آیت کا دوسرا حصہ ہے جس میں ایک ہی بات بتائی گئی ہے کہ یہ قرآن مجید متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔ قرآن مجید دنیا کی دیگر تمام کتابوں سے ایک الگ تھلگ کتاب ہے۔ یہ تاریخ کا دفتر بھی نہیں، واقعات کی کتاب بھی نہیں، طبی و ریاضی کا انسائیکلوپیڈیا بھی نہیں، جغرافیائی منظر نامہ بھی نہیں اور سلسلہ وار مضامین کا مجموعہ بھی نہیں، بلکہ قرآن مجید ایک مثالی کتاب ہدایت ہے۔ دستور حیات ہے۔ کامل و مکمل نقشۂ زندگی ہے۔

اس کتاب ہدایت سے صرف وہی لوگ فائدہ اٹھا سکیں گے جن کے دل میں خوف الٰہی موجود ہو۔ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۹۷ میں بھی قرآنِ مجید کو ہدایت نامہ قرار دیا گیا ہے: هُدىً وَّبُشْرىٰ لِلْمُؤْمِنِیْنَ کہ یہ قرآن ایمان والوں کے لیے ہدایت اور خوشخبری دینے والا ہے۔ اگر چہ کہ یہ کتاب ساری دنیا کے لیے نازل کی گئی ہے جیسا کہ قرآن مجید ہی میں دوسری جگہ هُدًى لِّلنَّاسِ (البقرة : ۱۸۵) کے ذریعہ وضاحت کی گئی ہے۔ مگر فائدہ تو انہی کو ہوگا جن کے دل میں تقویٰ کی کیفیت ہوگی۔ اسی لیے یہاں هُدىً لِّلْمُتَّقِيْنَ کہا گیا کہ وہ متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔ قرآن مجید سر تا پا ہدایت ہی ہدایت ہے۔ اس سے جو جتنا قریب ہوگا وہ اسی قدر راہ ہدایت پر رہے گا۔

قرآنِ مجید اس کے ماننے والوں، اس پر عمل کرنے والوں اور اس میں غور و فکر کرنے والوں کو ہدایت کی وہ سیڑھیاں عطا کرے گا جس کے ذریعہ رب ذوالجلال کی خوشنودی حاصل ہوگی اور جس کو ہدایت مل جائے اس کی مغفرت کا سامان نصیب ہو جائے گا۔

تقویٰ کے معنی ڈرنے کے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا تقویٰ کس کو کہتے ہیں؟ پوچھا کہ کانٹے دار جھاڑیوں میں کس طرح چلا کرتے ہو؟ فرمایا کہ دامن سمیٹ کر کپڑے بچا کر۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا بس یہی تقویٰ کی صورت ہے۔ اور جس طرح ہدایت کے مراتب مختلف ہیں اسی طرح تقویٰ کے درجات بھی مختلف ہیں۔

جو لوگ دل کی گہرائیوں سے یہ ارادہ رکھتے ہوں کہ وہ قرآن مجید سے ہدایت حاصل کریں گے، انہیں سب سے پہلے تقویٰ کے دروازے میں داخل ہو جانا چاہیے، جس دن اللہ کا بندہ اللہ کی نگاہ میں متقی کہلائے گا اس دن وہ ہدایت کی شاہراہ پالے گا۔ (جاری)


Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے