درس قرآن نمبر (۶) سورۃ البقرة، آیت: ۳ (الف)
متقی وہ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں
أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ ـ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ
لفظ بہ لفظ ترجمہ: الَّذِيْنَ وہ لوگ جو يُؤْمِنُوْنَ ایمان رکھتے ہیں بِالْغَيْبِ غیب پر
ترجمہ: جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔
تشریح: سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۳ میں اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے تین اوصاف بیان کیے ہیں۔ غیب پر ایمان رکھنا، نماز کا قائم کرنا، راہِ خدا میں مال خرچ کرنا۔
آج ایمان بالغیب کے بارے میں چند اہم ترین باتیں پیش کی جارہی ہیں۔ جس کو ایمان نصیب ہو جاتا ہے اس کے دل کو اطمینان اور روح کو تسلی نصیب ہو جاتی ہے۔ ایک مومن کے لیے سب سے بڑا سہارا اور آسرا اس کا وہ مضبوط ایمان ہے جو وہ اپنے حقیقی رب پر اور اس کے رسولوں، کتابوں، فرشتوں اور آخرت وغیرہ پر رکھتا ہے۔ زندگی کی مشکل ترین گھڑیوں میں اور سخت سے سخت حالات میں ایک مومن کے لیے سب سے مضبوط سہارا اس کا ایمان ہوتا ہے۔ شک، تردد اور تذبذب سے بالاتر ہوکر وہ اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔ ایمان بالغیب کا تعلق محسوسات اور معقولات سے ماوراء ہوتا ہے جس کے بارے میں صرف نبی کے ذریعہ ہی خبریں معلوم ہوسکتی ہیں۔
نظر سے چھپی ہوئی اور مشاہدہ اور تجربہ سے باہر کی وہ ساری باتیں جو نبیوں کے ذریعہ ہم تک پہنچتی ہیں ان پر ہمارا جو کامل یقین ہوتا ہے وہی ایمان بالغیب ہے۔ ابنیاء کرام علیہم السلام کے ذریعہ حشر و نشر کے احوال، حوروں اور فرشتوں کے حالات، قیامت، جنت و دوزخ ، پل صراط اور میزان وغیرہ سے متعلق ساری معلومات جو ہم تک پہنچی ہیں ان سب کا تعلق ایمان بالغیب سے ہے۔ جن باتوں کا ثبوت قرآنِ مجید اور رسول رحمت ﷺ کے ذریعہ ہو جائے ان ساری چیزوں کو پوری طرح مان لینا ایمان بالغیب ہے۔ ایمان کے میدان میں اپنی سمجھ، اپنی فکر اور اپنی عقل کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے اقوال کے تابع رکھنا چاہیے ۔ اسی وقت آدمی مومن کہلاتا ہے۔ (جاری)