درس قرآن نمبر (۷) سورۃ البقر، آیت: ۳ (ب)

درس قرآن نمبر (۷) سورۃ البقر، آیت: ۳ (ب)

متقی وہ ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں

أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ ـ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ

لفظ بہ لفظ ترجمہ: وَ اور يُقِيْمُوْنَ قائم کرتے ہیں الصَّلَاةَ نماز کو۔

ترجمہ: اور نماز کو قائم رکھتے ہیں۔

تشریح: سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۳ میں اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے جن تین اوصاف کا ذکر کیا ہے ان میں ایک نماز کا قائم رکھنا بھی ہے۔ اللہ تعالی کی نگاہ میں وہ لوگ مومن کہلاتے ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہوں اور نماز قائم رکھتے ہوں اور اللہ کی راہ میں اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے خرچ بھی کرتے ہوں۔ آج ہم متقیوں کے دوسرے وصف اقامتِ صلوٰۃ پر چند اہم ترین باتیں بیان کرتے ہیں۔

يُقِيْمُوْنَ یعنی قائم رکھتے ہیں۔ یہ اقامت سے يُقِيْمُوْنَ ہے اور اقامت کے معنی کسی چیز کو کھڑے کرنے یا اس طرح سیدھے کرنے کے ہیں کہ اس میں کوئی ٹیڑھا پن باقی نہ رہے۔ اس طرح يُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ کا مطلب یہ ہوا کہ جو متقی ہوتے ہیں وہ نماز کو اس کے آداب و شرائط کے ساتھ سنتوں اور مستحبات کی رعایت کرتے ہوئے پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اوقات نماز کی رعایت رکھتے ہوئے ادا کرتے ہیں۔ اگر صرف یوں ہی نماز پڑھنا مطلوب ہوتا تو اللہ تعالیٰ يَقْرَؤٗنَ الصَّلَاةَ یا يُصَلُّوْنَ الصَّلَاةَ فرماتے لیکن يُقِيْمُوْنَ کا لفظ استعمال فرماکر اس جانب توجہ دلائی گئی کہ نماز کو پورے اہتمام کے ساتھ اور پابندی کے ساتھ ادا کرنی چاہئے۔

نماز کو قائم کرنے کا حکم قرآن مجید میں بیسیوں مرتبہ دیا گیا ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۴۳ میں یوں ہے وَ أَقِيْمُوْا الصَّلوٰةَ وَ اٰتُوْا الزَّکوٰۃَ اور نماز کو قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۸۳ اور ۱۱۵ میں اسی طرح کا حکم ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۱۷۷ میں نماز کے قائم کرنے کو اصل نیکی قرار دیا گیا ہے: وَ أَقَامَ الصَّلوٰةَ وَ اٰتَى الزَّكوٰةَ۔ قرآن مجید میں دوسری جگہوں پر نماز کے سلسلہ میں جو ہدایات دی گئی ہیں وہ یہ کہ نماز کے وقت اللہ کی یاد تازہ رہے۔ أَقِمِ الصَّلوٰةَ لِذِكْرِيْ (طٰهٰ: ۱۴) اور نماز میں یکسوئی اور خشوع و خضوع بھی مطلوب ہے جیسا کہ فرمایا: الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلوٰتِهِمْ خٰشِعُوْنُ (المؤمنون: ۲) اور نمازوں کی پابندی بھی مطلوب ہے الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلوٰتِهِمْ دَائِمُوْنَ (المعارج: ۲۳) نماز اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے جو اللہ کی مرضی کے مطابق ہونی چاہیے۔ ہم اگر اپنی مرضی سے نماز پڑھیں اور فجر کی نماز پڑھیں ظہر کی نماز چھوڑ دیں یا عصر کی نماز پڑھیں اور مغرب کی نماز چھوڑ دیں تو یہ ہماری اپنی مرضی والی نماز ہے اور رب کی مرضی والی نماز یہ کہ دن اور رات کی پانچوں نمازوں کا اہتمام کیا جائے۔ نماز میں جس طرح جسم شامل رہتا ہے اسی طرح دل و دماغ بھی شامل اور حاضر رہنا چاہیے اور جو کچھ کہ قیام، رکوع، قومہ، سجدہ اور قعدہ میں پڑھا جارہا ہے اس کے معانی پر غور کرنا چاہیے تاکہ خشوع و خضوع میں مدد مل سکے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اقامت صلوٰۃ سے مراد نماز کے فرائض بجالانا، رکوع، سجدہ، تلاوت میں خشوع اور توجہ کو قائم رکھنا ہے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں وقتوں کا خیال رکھنا اور اچھی طرح وضو کرنا اور اچھی طرح رکوع اور سجدہ کرنا مراد ہے۔ (ابن کثیر) (جاری)


Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے