درس قرآن نمبر (۸) سورۃ البقر، آیت: ۳ (ج)

درس قرآن نمبر (۸) سورۃ البقر، آیت: ۳ (ج)

متقی وہ ہیں جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں

أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ ـ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُوْنَ۝

لفظ به لفظ ترجمہ: وَ مِمَّا اور جو کچھ رَزَقْنَاهُمْ ہم نے ان کو دیا ہے يُنْفِقُوْنَ خرچ کرتے ہیں۔

ترجمہ: اور ہمارے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔

تشریح: سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۳ میں متقیوں کے جن تین اوصاف کا ذکر کیا گیا ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مال و دولت عطا کی ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں وہ خرچ کیا جائے۔

متقی جہاں اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہے، نماز کو قائم رکھتا ہے وہیں وہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے مال میں سے خرچ بھی کرتا ہے۔ متقی کے لیے صرف ایمان اور نماز کافی نہیں ہے بلکہ متقی جہاں ایمان اور نماز کے ذریعہ اللہ کو راضی کرتا ہے وہیں اللہ کی مخلوق پر خرچ کرتے ہوئے بھی اللہ کو راضی کرتا ہے۔

قرآن مجید میں عموماً جہاں جہاں نماز کو قائم رکھنے کا حکم دیا گیا وہیں زکوٰۃ ادا کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ وَ مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُوْنَ میں ساری مالی عبادتیں داخل ہیں چاہے وہ زکوٰۃ ہو یا صدقہ و خیرات ہو۔ اللہ کی راہ میں جو مال خرچ کیا جاتا ہے وہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کا دیا ہوا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُوْنَ اور ہم نے جو دے رکھا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔

سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲۵۴ میں ایمان والوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ ہم نے جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرو يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا أَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنَاكُم۔ سورۂ منافقون میں یوں کہا گیا: وَ أَنْفِقُوا مِنْ مَّا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أحَدَكُمُ المَوْتُ۔ تم خرچ کرو جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اس سے پہلے پہلے کہ تم کو موت آ جائے۔ اگر خرچ کرنے والا اس تصور سے اللہ کی راہ میں خرچ کرے کہ یہ میرے رب ہی کا مال ہے، اسی کا دیا ہوا ہے تو غرور و گھمنڈ جیسے بدترین گناہ سے وہ بچ سکتا ہے۔

یہاں ایک بات یہ بھی یاد رکھیں کہ خرچ کرنے سے مراد صرف مال و دولت ہی نہیں ہے، اس لیے کہ رزق کا معنی صرف مال و دولت اور کھانے پینے کی اشیاء ہی نہیں بلکہ اس رزق کے دائرہ میں علم و حکمت بھی ہے، فہم سلیم بھی ہے۔ اس طرح اگر کوئی عالم اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے علم کو لوگوں میں پھیلاتا ہے تو وہ بھی اس فہرست میں داخل و شامل ہے۔

جو متقی ہوتے ہیں وہ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور جو لوگ اللہ کے دین کی مخالفت اور دیگر گناہوں میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں اور بیجا اسراف کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہوں میں متقی نہیں بلکہ فاسق ہیں۔ حضرت ابن عباس اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم نے فرمایا کہ وَ مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُوْنَ سے مراد اپنے بال بچوں کو کھلانا ہے۔ (ابن کثیر )

عموماً لوگ غریبوں اور تیموں پر خرچ کرنے اور انہیں کھلانے کو باعث اجر و ثواب سمجھتے ہیں اور اپنے بال بچوں کو کھلانا نیکی نہیں سمجھتے جبکہ آدمی کے متقی ہونے میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنے بال بچوں پر اپنا مال خرچ کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (جاری)


Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے