درس قرآن نمبر (۹) سورة البقرة، آیت: ۴ (الف)
متقی وہ ہیں جو تمام انبیاء علیہم السلام پر اتری ہوئی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں
أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ ـ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَ مَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ
لفظ بہ لفظ ترجمہ: وَ الَّذِيْنَ اور وہ لوگ جو يُؤْمِنُوْنَ ایمان لاتے ہیں بِمَا اس چیز پر جو أُنْزِلَ نازل کی گئی إِلَيْكَ آپ کی طرف وَ مَا اور اس چیز پر جو أُنْزِلَ نازل کی گئی مِنْ قَبْلِكَ آپ سے پہلے۔
ترجمہ: اور جو کتاب اے پیغمبر تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے پیغمبروں پر نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے ہیں۔
تشریح: سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۴ میں متقیوں کی چوتھی علامت یہ بیان کی گئی کہ وہ نبی رحمت ﷺ پر اور آپ ﷺ سے پہلے نبیوں پر اتری ہوئی آسمانی ہدایات پر ایمان رکھتے ہیں۔ یعنی ان آیاتِ الٰہی کی تصدیق کرتے ہیں اور اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ برحق باتیں ہیں جو آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر اور آپ ﷺ سے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام پر نازل کی گئی ہیں۔
قرآن مجید کی تعلیمات کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن مجید پر بھی ایمان لایا جائے اور ان کتابوں پر بھی ایمان لایا جائے جو اس سے پہلے نازل ہوئیں، تورات، زبور، انجیل اور دیگر صحیفے۔ سورۂ نساء کی آیت نمبر ۱۶۲ میں ایسے لوگوں کی تعریف کی گئی جو قرآن مجید اور اس سے پہلے نازل شدہ کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں: لٰكِنِ الرَّاسِخُوْنَ فِيْ الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَ مَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ۔ لیکن ان میں سے جو کامل اور مضبوط علم والے ہیں اور ایمان والے ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا۔ اس آیت سے اسلام کی وسعت ظرفی معلوم و محسوس کی جاسکتی ہے کہ دو اور دو چار کی طرح یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ مومن و مسلمان کے لیے صرف آخری نبی پر اتری ہوئی باتوں کی تصدیق ہی کافی نہیں ہے بلکہ آپ پر اتری ہوئی تمام باتوں کی تصدیق جہاں لازمی ہے وہیں آپ ﷺ سے پہلے جتنے انبیاء و رسل مبعوث کئے گئے اور ان پر آسمانی ہدایات نازل کی گئیں۔ ان ہدایات کی تصدیق بھی لازمی ہے؛ اس لیے بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ کے ساتھ وَ مَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ کا اضافہ کر دیا گیا۔
یہ امت محمدیہ کے دین کی وسعت ظرفی ہے۔ یہ خصوصیت یہود و نصاریٰ میں نہیں پائی جاتی۔ ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے نبی کی باتوں پر بھی پوری طرح یقین و اعتقاد نہیں رکھتے۔
قرآن مجید جو آخری امت کی آخری آفاقی کتاب ہے اس کے احکام پر عمل کیا جائے گا اور اب ان آسمانی کتابوں پر جو قرآن مجید سے پہلے نازل ہوئیں ان پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضور ﷺ پر نازل شدہ شریعت پر تفصیلی ایمان ضروری ہے جبکہ سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کی شریعتوں پر اجمالی ایمان کافی ہے۔
اس آیت سے ایک اہم استدلال یہ کیا گیا ہے کہ وَ مَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ سے ختم نبوت کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ اس لیے کہ اگر حضور ﷺ کے بعد بھی نبوت کا سلسلہ رہتا تو اللہ تعالىٰ وَ مَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ کے ساتھ مِنْ بَعْدِكَ کا ذکر بھی فرماتے؛ مگرقرآن مجید میں متعدد جگہوں پر صرف مِنْ قَبْلِكَ ہی فرمایا گیا، مِنْ بَعْدِكَ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس لیے کہ آپ ﷺ آخری پیغمبر ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی رسول اور نہ ہی کوئی کتاب۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدۂ ختم نبوت پر قائم رکھے۔ آمین (جاری)