درس قرآن نمبر (۱۰) سورۃ البقرۃ، آیت: ۴ (ب)

درس قرآن نمبر (۱۰) سورۃ البقرۃ، آیت: ۴ (ب)

متقی وہ ہیں جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں

أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ ـ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَ۝

لفظ بہ لفظ ترجمہ: وَ بِالْآخِرَةِ اور آخرت پر هُمْ وہ سب يُوْقِنُوْنَ یقین رکھتے ہیں۔

ترجمہ: اور آخرت پر وہ یقین رکھتے ہیں۔

تشریح: سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۴ میں متقیوں کی پانچویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ جو متقی ہوتے ہیں وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہاں اس نکتہ پر بھی غور فرمائیے کہ انبیاء کرام علیہم السلام پر نازل شدہ باتوں کے لیے إیمان کا لفظ استعمال کیا گیا اور آخرت کے لیے إیقان کا لفظ استعمال کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ إیمان اور إیقان میں تھوڑا سا فرق ہے۔ ایمان کے معنی تصدیق کرنے اور مان لینے کے ہیں جس کی ضد کفر اور انکار ہے اور ایقان کے معنی یقین کرنے کے ہیں جس کی ضد شک اور گمان ہے۔ قیامت کے دن رب ذوالجلال کی ملاقات کے لیے سورۂ رعد کی آیت نمبر ۲ میں یقین کا لفظ استعمال کیا گیا ’’لَعَلَّكُمْ بِلِقَاءِ رَبِّكُمُ تُوْقِنُوْنَ۔‘‘ سورۂ نمل کی آیت نمبر ۳ میں بھی آخرت کے لیے یقین کا لفظ استعمال کیا گیا ’’وَ هُمُ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنُ‘‘ اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔

آدمی جس چیز پر یقین رکھتا ہے یہ ضروری نہیں کہ اس پر ایمان بھی رکھے، جیساکہ فرعون کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نبی ہونے کا یقین تھا لیکن وہ ان پر ایمان نہیں لایا۔ اسی طرح کسی چیز پر ایمان رکھنے کے لیے اس پر یقین کرنا بھی شرط نہیں، ہو سکتا ہے کہ اس کا ایمان غالب گمان پر مبنی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ گمان کی منزل سے نکل کر یقین کی منزل تک پہنچ جائے، اس طرح ایمان کی تکمیل ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ نے یہاں پہلے ایمان کا ذکر کیا ہے پھر ایقان کا ذکر کیا ہے تاکہ یہ بات ظاہر کردی جائے کہ جو شخص ان چیزوں پر پہلے ایمان رکھتا ہے وہی شخص آخرت پر یقین بھی رکھتا ہے۔ قرآن مجید کی یہ آیت ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی ساری ہی باتوں پر ایمان رکھیں۔ اور آخرت کا یقین دل میں پیدا کریں۔ عقیدۂ آخرت کی اہمیت اسلام میں بنیاد کی سی ہے، اسی آخرت کے عقیدہ کی بنیاد پر نیکیوں کے حصول کی تمنا اور جنت میں داخل ہونے کی آرزو دلوں میں بسی ہوئی ہوتی ہے۔

اسلامی عقائد میں عقیدۂ آخرت ایک انقلابی عقیدہ ہے جس سے زندگیوں میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ آخرت کا صرف جاننا کافی نہیں بلکہ آخرت کو ماننا اور اس پر پختہ یقین کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو آخرت پر یقین رکھنے کی توفیق بخشے۔ آمین (جاری)


Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے