درس قرآن نمبر (۱۱) سورة البقرة، آیت: ۵

درس قرآن نمبر (۱۱) سورة البقرة، آیت: ۵

راه ہدایت پر کون ہیں اور کامیاب کون؟

أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ ـ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

أُولٰٓئِكَ عَلىٰ هُدىً مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ أُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ

لفظ بہ لفظ ترجمہ: أُولٰٓئِكَ یہی وہ لوگ ہیں جو عَلىٰ هُدىً ہدایت پر ہیں مِّنْ رَّبِّهِمْ اپنے رب کی طرف سے وَ أُولٰٓئِكَ اور یہی وہ ہیں هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ جو کہ کامیاب ہیں۔

ترجمہ: یہی لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی نجات پانے والے ہیں۔

تشریح: سورۂ بقرہ کی پانچویں آیت میں متقیوں کا حسن انجام بتلایا گیا ہے۔ جو لوگ تقویٰ کی صفت رکھتے ہیں ان کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ نگاہوں سے چھپی ہوئی حقیقتوں کو محض اس بنیاد پر تسلیم کر لیتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی حقیقتیں ہیں۔ وہ جنت و دوزخ پر بھی ایمان رکھتے ہیں، حشر و نشر پر بھی، پل صراط اور میزانِ عدل پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور بعث بعد الموت پر بھی، حساب و کتاب پر بھی یقین رکھتے ہیں اور شفاعت پر بھی۔

یہ متقی ایسے ہیں کہ صرف زبانی جمع خرچ کے متقی نہیں بلکہ ایمان کے تقاضے کے مطابق بدنی عبادت کے طور پر نماز کو قائم رکھتے ہیں، فرائض، واجبات، سنتوں اور نوافل کا اہتمام کرتے ہیں، مالی عبادت کے طور پر زکوٰۃ، صدقات واجبہ و نافلہ بھی ادا کرتے ہیں اور جو باتیں قرآن مجید میں ہیں اور انبیاء سابقہ علیہم السلام پر نازل ہوئیں ان پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور آخرت کا یقین بھی رکھتے ہیں۔

یہی وہ سعادت مند متقی ہیں جن کو ان کے رب ذوالجلال کی طرف سے ہدایت کا تحفہ ملا ہے اور یہ سند انہیں دی گئی ہے کہ یہ راہ ہدایت پر ہیں اور یہ اعلان بھی ان کے حق میں کردیا گیا ہے کہ یہ کامیاب اور نجات یافتہ خوش نصیب ہیں۔

ایک مرتبہ رسول رحمت ﷺ سے سوال ہوا کہ اے اللہ کے رسول! قرآن پاک کی بعض آیتیں تو ہمیں ڈھارس باندھ دیتی ہیں اور امید قائم کرا دیتی ہیں اور بعض آیتیں کمر توڑ دیتی ہیں اور قریب ہوتا ہے کہ ہم ناامید ہو جا ئیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں جنتی اور جہنمی کی پہچان صاف صاف بتلا دوں؟ پھر آپ ﷺ نے الٓمٓ سے مُفْلِحُوْنَ تک پڑھ کر فرمایا: یہ تو جنتی ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے خوش ہوکر فرمایا: الحمد للہ! ہمیں امید ہے کہ ہم انہی میں سے ہوں، پھر إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سے عَظِیْمٌ تک تلاوت کی اور فرمایا یہ جہنمی ہیں۔ انہوں نے کہا ہم ایسے نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! (ابن ابی حاکم)

اس پرفتن دور میں راہ راست سے ہٹ جانے کے اسباب جراثیم کی طرح پھیل چکے ہیں۔ ایسی خطرناک صورتِ حال میں ہمیں ہمیشہ چوکنا رہنا چاہیے اور ہدایت کی راہ پر جمے رہنے کے لیے کتاب ہدایت قرآن مجید سے چمٹے رہنا چاہیے تاکہ کامیابی سایہ کی طرح ہمارے ساتھ رہے۔

ہمارے ملک کے تشویشناک حالات اور کشیدہ صورت حال سے یہ خدشے پیدا ہو گئے ہیں کہ کہیں ایمان اور معیشت کے اعتبار سے کمزور لوگ ارتداد کا شکار نہ ہو جائیں۔ ایسی صورت حال میں اہل علم اور ذمہ دارانہ صلاحیتوں کے حامل افراد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں میں ایمان کی مضبوطی کی تدابیر اختیار کریں اور ان میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کی فکر اور کوشش میں لگے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت کے ساتھ زندہ رکھے اور راہ ہدایت پر رہتے ہوئے اس دنیا سے رخت سفر باندھنے کی توفیق بخشے۔ دنیا جہاں کے مسلمانوں کے دین و ایمان اور ان کے جان و مال کی حفاظت فرمائے۔ آمین (جاری)


Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے