درس قرآن نمبر (۳) سورۃ الفاتحہ، آیت: ۵-۶-۷

درس قرآن نمبر (۳) سورۃ الفاتحہ، آیت: ۵-۶-۷

اللہ تعالی سے صراط مستقیم مانگیے

أعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ، بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِيْمَ۝ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ، غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّيْنَ۝

لفظ بہ لفظ ترجمہ: اِهْدِنَا ہم کو دکھلائیے، الصِّرَاطَ راستہ، المُسْتَقِيْمَ سیدھا، صِرَاطَ الَّذِيْنَ ان لوگوں کا راستہ، أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ جن پر تیرا انعام ہوا، غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ ان کا راستہ نہیں جن پر غضب ہوا، وَلَا الضَّالِّيْنَ اور نہ ان لوگوں کا راستہ جو گمراہ ہیں۔

ترجمہ: دکھلا ہمیں سیدھا راستہ، ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا انعام ہوا، ان کا راستہ نہیں جن پر غضب ہوا اور نہ گمراہوں کا۔

تشریح: ان تین آیتوں میں تین باتیں بتلائی گئی ہیں۔

ا۔ آپ ہمیں سیدھا راستہ دکھلائیے۔

۲۔ ان لوگوں کا راستہ دکھلایئے جن پر آپ کا انعام ہوا۔

۳۔ ان لوگوں کا راستہ نہ دکھلائیے جن پر غضب ہوا اور جو گمراہ ہو گئے۔

بندہ نے اپنے رب سے اپنا تعلق جوڑتے ہوئے کہا کہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ اللہ سے مانگنے کی بات جب آئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ کی تربیت یوں کی کہ سب سے پہلے جو چیز اپنے رب سے مانگنی چاہیے وہ صراط مستقیم (سیدھا راستہ) ہے؛ اس لئے بندہ نے اللہ تعالیٰ سے یوں دعاء کی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِيْمَ ہمیں سیدھا راستہ دکھلا۔ ایک رب کی عبادت کی تعلیم جس راستہ میں دی جاتی ہے وہی صراط مستقیم ہے۔

سورۂ آل عمران کی آیت نمبر ۵۱ میں فرمایا گیا: إِنَّ اللّٰهَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ هَذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ، بیشک میرا اور تمہارا رب اللہ ہی ہے، تم اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھی راہ ہے۔

اب صراط مستقیم کا معیار کیا ہوگا؟ اس کی وضاحت یوں کی گئی کہ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا انعام ہوا، دنیا میں وہ کونسی جماعت ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا؟ مفسرین نے فرمایا وہ نبیوں کی جماعت ہے۔

ہم جب بھی اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم کی بھیک مانگیں ہمارے تصور میں انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت مبارکہ ہونی چاہئے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی رحمت ﷺ تک جتنے بھی انبیاء و رسل تشریف لائے وہ سب کے سب صراط مستقیم پر قائم رہے۔

اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام سب سے پہلے نبیوں اور رسولوں پر ہوتا ہے۔ سورۂ نساء کی آیت نمبر ۶۹ میں فرمایا گیا: فَأُولٰۤئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّيْنَ وَالصَّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِيْنَ۔ غور کریں کہ نعمتوں کی برسات پہلے نبیوں پر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی وہ مبارک اور پر امن راستہ عطا فرمادے۔

اسی کے ساتھ ان بدنصیب اور بد بخت افراد کا تصور بھی کیا جائے جو صراط مستقیم سے محروم رہے اس لئے غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّيْنَ کے ذریعہ وضاحت کی گئی کہ ہمیں ان لوگوں کا راستہ نہیں چاہئے جن پراے اللہ! تیرا غضب نازل ہوا اور ان گمراہوں کا بھی راستہ نہیں چاہئے جو نبیوں کے طریقہ سے ہٹ گئے۔ جو لوگ علم رکھنے کے باوجود محض شرارت سے مخالفت کرتے ہیں اللہ تعالی کا غضب ان پر ہوتا ہے اور یہ صفت یہودیوں کی تھی جنہوں نے علم رکھنے کے باوجود عمل کو چھوڑ دیا اور نصاریٰ نے عمل کا ارادہ تو کیا مگر بے علمی کی وجہ سے عمل کے لئے غلط طریقہ اختیار کر لیا، نبیوں کی اتباع چھوڑ دی اور گمراہ ہو گئے۔

ہم نماز میں بار بار سورۂ فاتحہ پڑھتے ہیں اور ہر بار یہود و نصاری کے راستے سے دور رہنے کی دعاء کرتے ہیں مگر کیا واقعی ہماری یہ دعاء ہمارے دل سے نکل رہی ہے؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے جو ہماری زندگی کے طور طریقوں سے یہ سوال کرتا ہے کہ ہم اپنی عملی زندگی میں کہیں یہودی طریقہ کی طرف تو نہیں جار ہے ہیں، کہیں نصاریٰ کو اپنا قبلہ تو تسلیم نہیں کر رہے ہیں؟ ہمیں اپنی زندگی کا محاسبہ کرنا چاہئے اور اپنی شکل وصورت، اپنی رفتار و گفتار، اپنا لباس، اپنی تجارت و معاشرت اور اپنی معیشت کو نبوی طریقہ کے مطابق رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ سورۂ فاتحہ کا ہماری زندگی سے یہی مطالبہ ہے۔ سورہ فاتحہ کو ہرنماز کی ہر رکعت کا وظیفہ بنایا گیا تاکہ ہم ہر وقت اپنی زندگی کا محاسبہ کرتے رہیں کہ ہمارا شمار نیکوکاروں میں ہے یا بدکاروں میں؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین (جاری)


Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے