قیادت کا فقدان یا تسلیمِ قیادت کا بحران – مسلمانوں کا حقیقی مسئلہ کیا ہے؟

قیادت کا فقدان یا تسلیمِ قیادت کا بحران

مسلمانوں کا حقیقی مسئلہ کیا ہے؟

از۔ محمود احمد خاں دریابادی

آج کل ایک تحریر گشت کررہی ہے جس کا عنوان ہے ’’قیادت نے بہت مایوس کیا‘‘ ……… ٹھیک ہے اگر ایسا ہے تو آسان علاج ہے……… قائد بدل لیجیے، ……. مگر ٹہریے! پہلے یہ تو بتائیے آپ نے کسی کو قائد مانا ہی کب تھا……؟ آپ کاحال تو یہ ہے بقول غالب ……..

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہ رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ …… قیادت کا فقدان، یا تسلیمِ قیادت کا بحران ؟؟

جن دنوں مولانا حسین احمد مدنی، مولانا آزاد اور رفیع احمد قدوائی جیسے مخلص افراد موجود تھے اس وقت کتنے فیصد مسلمانوں نے ان کواپنا قائد تسلیم کیا تھا؟ ….. کیا لاہور اشٹیشن پر حضرت مدنی کی ڈاڑھی کھینچ کر تھپڑ مارنے والا کوئی ہندو تھا؟ ……. کیا آج ہی کی طرح کے جذباتی مسلمانوں نے حضرت مدنی پر پتھراؤ کرکے اُنھیں لہولہان نہیں کردیا تھا ؟ مولانا آزاد کو ہندوؤں کا شوبوائے کہنے والے یہودی تھے؟

وہ وقت بھی یاد کیجیے جب ڈرائنگ رومس میں آرام دہ صوفوں پر سگار کا کش لگاتے ہوئے مسلمانوں کی قیادت کا دعوی کرنے والے ہم ہندوستانی مسلمانوں پر فاتحہ پڑھ کراپنی مزعومہ مملکت خداداد کے لیے پرواز کرگئے تھے ـ……. تب یہی چند مخلص نفوس تھے جنھوں نے گالیاں بکنے والے اور پتھراؤ کرنے والے اپنے ہندوستانی مسلمان بھائیوں کے لیے غیروں کے طعنے، تعصب اور مغلظات برداشت کیے، ……. مسلمانوں کے خلاف پھوٹ پڑنے والے فسادات کے خلاف جان ہتھیلی پر لیے سڑکوں پر نکلے، آزاد ہندوستان کے رہنماؤں پر دباؤ بنایا، مسلمانوں کو بنیادی حقوق دلانے کی جدو جہد کی ـ…….. جب ہماری قوم نے اُن جاں نثار مخلصین کو قائد نہیں مانا تو آج کے ………. ؟؟

یہاں سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے آخر اتنی جانفشانی کے بعد بھی ہمارے قدیم مخلص رہنماء پوری طرح مسلمانوں کو اُن کے جائز حقوق دلانے میں کامیاب کیوں نہیں ہوسکے؟…….. تو دوستو! اس کی بنیادی وجہ وہی ’’تسلیمِ قیادت کا بحران‘‘ ہے، ……. کوئی بھی لیڈر حکومتوں پر دباؤ جبھی بنا سکتا ہے جب اُس کو اپنی قوم کی مکمل پشت پناہی حاصل ہو، …… حکومتیں سب جانتی ہیں کہ کون سے لیڈر کی کتنی عوامی پکڑ ہے، حکومت کا خفیہ محکمہ ساری اطلاعات پہونچاتا رہتا ہےـ یہی بات آزادی اور تقسیم ہند کے بعد مولانا آزاد نے بھی کہی تھی کہ اب میں کس منھ سے جواہر لال اور گاندھی سے اپنی قوم کے حقوق کی بات کروں، میری قوم کی اکثریت تو اُن لوگوں کو اپنا قائد سمجھتی رہی جو اُن پر فاتحہ پڑھ گئے …….. مولانا نے مزید یہ بھی فرمایا تھا کہ ان سب کے باوجود میں حکومتی ذمہ داروں کے پاس اس لیے بھی جاتا ہوں کہ کبھی کبھی آنکھوں کی شرم بھی کام آجاتی ہے، اس کے ذریعے بھی قوم کا کچھ نہ کچھ بھلا ہوجاتا ہےـ

ہمارے ایک مفتی صاحب کا ایک عدد ویڈیو بھی وائرل ہوا ہے جس میں موصوف خطیبانہ انداز میں ہجومی تشدد کی مذمت فرمانے کے بعد کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو ہمارے پاس بھی ہتھیار ہیں، اگر ہم اپنے نوجوانوں کو اشارہ کردیں تو وہ بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دےسکتے ہیں؟

سوال ہوسکتا ہے کہ اگر آپ کے پاس ہتھیار ہیں تو کہاں سے آئے؟ کون پہونچا رہا ہے؟ آپ میڈیا کے سامنے کھلے عام اعتراف فرمارہے ہیں۔
حالانکہ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک کے بیشتر مسلمانوں کے گھروں میں ڈھنگ کا ڈنڈا بھی نہیں ہوتاـ

دوسری طرف مفتی صاحب کے بیان کا سائیڈ ایفکٹ بھی فوراً سامنے آگیا، حکمراں پارٹی کے ایک رکن نے بیان دیدیا کہ مسلمانوں کی مسجدوں اور مدرسوں میں ہتھیار ہوتے ہیں ایک مولانا صاحب خود کہہ رہے تھے۔

آج ہی پارلیامنٹ میں ملک کے وزیر داخلہ نے بیان دیا کہ بنگال کے مدرسوں میں آتنکی ٹریننگ دی جاتی ہے اور پڑوسی ملک کی فلاں فلاں دہشت گرد تنظیموں کا تعاون بھی اُن کو حاصل ہےـ

مفتی صاحب کے پرجوش بیان سے متاثر ہوکر مسلم قیادت سے مایوس ہوجانے والے جذباتی افراد سے یہ سوال کیا جابا چاہیے کہ کیا آپ حضرات یہ چاہتے ہیں کہ مسلم قیادت تمام مسلمانوں سے اپیل کرے کہ حضرت مفتی صاحب کے بتائے ہوئے مفروضہ ہتھیار لے کر میدان میں آجاؤ اور ………. !!

ابھی ماضی قریب میں عنایت اللہ مشرقی نامی ایک شخصیت گزری ہے، انہوں نے تحریک خاکسار نامی ایک جماعت بنائی تھی، اُس میں تب کے بہت سے پرجوش نوجوان شامل ہوگئے تھے اور کاندھے پر بیلجہ لے کر گھومتے تھے، بیلجے کے زور پر سماج کی اصلاح کرنے کا دعوی کرتے تھے، اسی اصلاح کے جوش میں حکومت سے ٹکرا گئے، بندوقوں کے سامنے بیلچے؟…….. نتیجہ ظاہر ہے، انگریز حکومت نے کچل کر رکھ دیا، آج کوئی نام لیوا نہیں۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم پندرھویں صدی ہجری کی پیدائش ہونے کے باوجود اپنے قائدین میں ابوبکر وعمر جیسی خصوصیات تلاش کرتے ہیں، ابوبکر وعمر اُس جماعت کے قائد تھے جس میں عثمان وعلی، طلحہ وزبیر، عبدالرحمن و ابوعبیدہ اور سعد و سعید جیسے لوگ ہوا کرتے تھے۔

اس لیے قیادت پر تنقید سے پہلے تسلیمِ قیادت کا مزاج پیدا کیجیےـ……. اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی قیادت آپ کے حقوق کے لیے حکومتوں کے سامنے سینہ سپر ہوجائے تو قیادت ہر اعتماد کیجیے، اس کی چھوٹی موٹی خامیوں کو نظر انداز کیجیےـ حالات سب دن ایک جیسے نہیں رہتے، حکومتیں آتی جاتی ہیں۔ جذباتیت کے بجائے حقیقت پسندی اختیار کیجیے، اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہے۔

Mahmood Daryabadi

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے