قادیانیت سے زیادہ خطرناک فتنۂ شکیلیت ہے
اسامہ غنی، متعلم پٹنہ کالج، پٹنہ یونیورسٹی
مرزا غلام احمد قادیانی نے جب نبی ہونے کا چھوٹا دعویٰ کیا تھا تو اس کی سازشوں میں کچھ کمی رہ گئی تھی۔ ان کمیوں کو مکمل غور و فکر کرکے نئے چہرے کے ساتھ فتنۂ شکیلیت ظاہر ہوا۔ عوام میں اس فتنے کا چرچہ ابھی چند مہینوں سے ہوا ہے مگر یہ فتنہ اندر ہی اندر کیٔ سالوں سے مسلمان نوجوانوں کے ایمان کو ختم کرتا جا رہا ہے۔ شکیل احمد خان ١٩٦٨ء کو رتن پور، دربھنگہ میں ایک خان گھرانے میں پیدا ہوا ہے (جب کہ امام مہدی حضرت فاطمہ کی نسل سے ہوں گے، سید ہوں گے)۔ بعد میں خان ٹائٹل چھپانے کے لیے اس نے اپنا نام شکیل بن حنیف کر لیا۔ دسمبر ٢٠٠٢ء میں یہ شکیل خان علانیہ طور پر خود کو امام مہدی اور عیسیٰ مسیح ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے۔ جب اس کی مخالفت ہوئی تو یہ بھاگ کر دہلی آجاتا ہے۔
اب یہ کذاب شکیل اورنگ آباد، مہاراشٹر میں تقریباً ٣٠٠ گھروں کی ایک بستی بسا کر رہ رہا ہے، اس بستی میں سارے لوگ شکیل کو ماننے والے ہی رہتے ہیں۔ اس فتنے پر تمام مسالک کے علماء کا فتویٰ آجکا ہے کہ شکیل بن حنیف کے مہدی اور عیسیٰ مسیح ہونے کا دعویٰ سراسر جھوٹ ہے، یہ شخص خود بھی کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور جو لوگ اس کے ہاتھ پر یا اس کے نمائندے کے ہاتھ پر بیعت ہو کر شکیل بن حنیف کو مہدی اور عیسیٰ مسیح مان چکے ہیں وہ بھی مرتد اور دائرہ اسلام سے باہر ہیں۔ مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو باخبر کیا جاتا ہے کہ کہیں بھی اس فتنے کی طرف دعوت دینے والے لوگ نظر آءیں تو علماء سے رجوع کریں، اس فتنہ کے پیروکاروں سے کوئی میل جول نہ رکھیں، نہ ان سے رشتہ ناطہ رکھیں اور نہ انہیں اپنی مساجد میں آنے دیں۔
سب سے پہلے تو یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ آگاہ کرنا اور اشتہار میں بہت فرق ہے۔ اگر کسی کو آگاہ کیا جا رہا ہو تو اس میں لوگوں کی بھلائی ہوتی ہے۔ کتنے لوگ ہمیں ایسے ملے جنہوں نے کہا کہ ہم تو اس لڑکے کو بہت متقی سمجھتے تھے مگر یہ تو شکیل بن حنیف کا آدمی نکلا۔ اگر لوگوں کو آگاہ نہیں کیا جاتا تو آج تک لوگ شکیل بن حنیف کے آدمی کو متقی سمجھتے رہتے اور وہ آپ کے ہی بچوں کو شکیلی بناتا رہتا۔
قادیانیوں کے دلائل مضبوط تھے جب کہ شکیلیوں کے دلائل بہت کمزور ہیں، جس کی وجہ سے یہ لوگ سب سے پہلے لوگوں کو علماء سے دور کرتے ہیں، علماء کے تعلق سے گمراہ کر تے ہیں۔ تو پھر شکیلیت کا فتنہ قادیانیت کے فتنے سے بھی زیادہ خطرناک کس اعتبار سے ہے؟ اگر دلائل مضبوط نہ ہوں تو غلط بات کو صحیح طرح سے سمجھانے کا طریقہ مضبوط ہونا چاہیے۔
کچھ لوگوں کو اس فتنے سے توبہ کروایا گیا اور ان سے شکیلیوں کے طریقہ کار کو سمجھا گیا تو معلوم ہوا کہ ان لوگوں کا اصل ہدف اسکول اور کالج کے طلبہ وطالبات ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس دینی شعور بہت کم ہوتا ہے، اس لیے ان کو اس فتنے میں کھینچنا آسان ہوتا ہے۔ شکیل کے لوگ دھیرے دھیرے نوجوانوں سے تعلق بنا کر کئی کئی مہینوں تک ایک ایک لڑکوں پر کام کرتے ہیں اور انہیں اتنا سخت بنا دیتے ہیں کہ وہ اپنے ماں، باپ، گھر، خاندان سب چھوڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں مگر اس فتنے سے خود کو نہیں نکال پاتے۔ ہمیں اکثر ان لوگوں کی ویڈیو نظر آتی ہے اور ہم لوگ دیکھ کر بھی اس فتنے کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
اب یہ بہت تیزی سے ہر طرف پھیل رہا ہے اور انہیں ایسا بنادیا جاتا ہے کہ ان کا اٹھنا بیٹھنا آپ کے ساتھ ہوگا مگر آپ محسوس نہیں کر سکیں گے کہ شکیل بن حنیف (کذاب) کے لوگ آپ کے درمیان موجود ہیں۔ یہ لوگ تعلق بنانے کے بعد دجال اور قیامت کی نشانیاں بیان کرتے ہیں اور علماء سے اس تعلق سے بات چیت کرنے سے منع کرتے ہیں اور پھر دھیرے دھیرے انہیں شکیل سے بیعت کروانے پر راغب کرتے ہیں۔
ہر شہر میں ان کا ایک مرکز موجود ہے، پٹنہ میں خواجہ پورا، پھلواری شریف کے علاقے میں ہر اتوار کو شکیل کے نمائندوں کی ملاقات ہوتی ہے۔ عالم گنج میں بھی بہت تیزی سے یہ فتنہ پھیل رہا تھا یہاں کے لوگوں نے اس فتنے کی حقیقت کو سمجھا اور سخت روک لگائی، پٹنہ کے سبزی باغ، نیو عظیم آباد، راجہ بازار، پھلواری شریف کے علاقوں میں کافی پکڑ ان لوگوں نے بنالی ہے۔
پہلے وہ وقت تھا جب لوگوں کو بچپن میں ہی ضروری اور بنیادی دینی علوم سے آگاہ کروا دیا جاتا تھا، جس سے بچے تمام فتنہ و فریب سے خود کو محفوظ رکھ پاتے تھے ، مگر اب سب سے پہلے بچے کو عیسائیوں کے اسکول میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ایک طرف ہماری بہنیںغیروں کے ساتھ شادی کرکے مرتد ہورہی ہیں تو دوسری طرف نوجوان لڑکے شکیل بن حنیف کو مہدی اور عیسیٰ مسیح مان کر دائرہ اسلام سے خارج ہو رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اس دور کے فتنوں سے محفوظ رکھے۔