درس قرآن نمبر (۱۵) سورة البقرة، آیت: ۱۱-۱۲

درس قرآن نمبر (۱۵) سورة البقرة، آیت: ۱۱-۱۲

منافق مصلح نہیں مفسد ہیں

أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ ـ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَإِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِيْ الْأَرْضِ قَالُوْا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ۝ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ۝

لفظ بہ لفظ ترجمہ: وَإِذَا اور جب قِيْلَ لَهُمْ کہا جاتا ہے ان سے کہ لَا تُفْسِدُوْا تم فساومت کرو فِيْ الْأَرْضِ زمین میں قَالُوْا تو وہ کہتے ہیں إِنَّمَا نَحْنُ ہم تو صرف مُصْلِحُوْنَ۝ اصلاح کرنے والے ہیں۔ أَلَا خبردار إِنَّهُمْ هُمُ بلا شبہ وہی ہیں الْمُفْسِدُوْنَ فساد کرنے والے وَلٰكِنْ اور لیکن لَّا يَشْعُرُوْنَ۝ وہ شعور نہیں رکھتے۔

ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم فساد مت کرو زمین میں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔ خبر دار بلاشبہ وہی ہیں فساد کرنے والے؛ لیکن وہ شعور نہیں رکھتے۔

تشریح: ان دو آیتوں میں دو باتیں بتلائی گئی ہیں:

ا۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم زمین میں فساد نہ مچاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔

۲۔ یا درکھو یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے۔

جب منافقوں سے یہ بات کہی جاتی تھی کہ تم لوگ زمین میں اپنے نفاق کے ذریعہ اور کفر کے ذریعہ فساد اور بگاڑ مت پیدا کرو تو وہ صاف طور پر اس بات کو جھٹلا دیتے تھے کہ وہ فساد اور بگاڑ پیدا کرنے والے نہیں ہیں بلکہ وہ تو اصلاح پسند لوگ ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ فساد کے معنی صرف جھگڑا کرنا نہیں ہے بلکہ سب سے بڑا فساد اور بگاڑ تو کفر، نفاق اور اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہے اور زمین میں اصلاح کے معنی صرف یہ نہیں کہ کسی برائی کا خاتمہ ہو جائے بلکہ اصل اصلاح یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کو رب ذوالجلال کی اطاعت میں لگا دے۔ منافقوں کا باطل اور جھوٹا دعوی یہ تھا کہ وہ فسادی نہیں بلکہ مصلح ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے منافقین کے اس جھوٹے دعوی کا جواب دیا کہ سن لو کہ یہی منافقین فساد کرنے والے ہیں لیکن ان کو اپنے فسادی ہونے کا شعور ہی نہیں ہے۔ منافق آدمی دوغلا ہوتا ہے اور دو غلے شخص سے ہمیشہ فساد ہی کا اندیشہ ہوتا ہے اور اس سے سوائے فساد و بگاڑ کے کسی اور چیز کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ایمان اور فساد دونوں چیزیں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ جو دنیا میں فساد اور بگاڑ پیدا کرتا ہے وہ کامل مومن نہیں ہو سکتا۔ انجام کے اعتبار سے بھی مومن اور مفسد (فساد کرنے والے) کا انجام ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔ سورۂ صٓ کی آیت نمبر ۲۸ میں اسی حقیقت کو ظاہر کیا گیا کہ ’’أَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِيْ الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ‘‘ کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان کے برابر کر دیں گے جو ہمیشہ زمین میں فساد مچاتے رہے یا پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کر دیں گے؟ (جاری)


Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے