درس قرآن نمبر (۱۳) سورة البقرة، آیت: ٨-٩
منافق مومن نہیں ہو سکتا
أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ ـ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ آمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ يُخَادِعُوْنَ اللّٰهَ وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا وَمَا يَخْدَعُوْنَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ
لفظ بہ لفظ ترجمہ: وَ مِنَ النَّاسِ اور بعض لوگ وہ ہیں مَنْ يَّقُوْلُ جو کہتے ہیں آمَنَّا ہم ایمان لائے بِاللّٰهِ اللہ پر وَ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ اور یومِ آخرت پر وَ مَا حالانکہ وہ نہیں ہیں بِمُؤْمِنِيْنَ ایمان لانے والے يُخَادِعُوْنَ اللّٰهَ وہ اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے وَمَا يَخْدَعُوْنَ اور وہ دھوکہ نہیں دیتے إِلَّا أَنْفُسَهُمْ مگر اپنے آپ ہی کو وَمَا يَشْعُرُوْنَ اور وہ شعور نہیں رکھتے۔
ترجمہ: اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور روز آخرت پر حالانکہ وہ بالکل ہی ایمان والے نہیں۔ دھوکہ دیتے رہے اپنے خیال میں اللہ کو اور ایمان والوں کو حالانکہ دھوکہ کسی کو بھی نہیں دیتے بجز اپنی ذات کے اور اس کا بھی احساس نہیں رکھتے۔
تشریح: ان دو آیتوں میں پانچ باتیں بتلائی گئی ہیں:
ا۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دن پر۔
۲۔ حالانکہ وہ بالکل ہی ایمان والے نہیں ہیں۔
۳۔ دھوکہ دیتے ہیں اپنے خیال میں اللہ کو اور ایمان والوں کو۔
۴۔ حالا کہ دھوکہ کسی کو نہیں دیتے سوائے اپنی ذات کے۔
۵۔ اور وہ اس کا احساس بھی نہیں رکھتے۔
نفاق کسے کہتے ہیں؟
دل میں کفر بسائے ہوئے زبان سے ایمان کی بولی بولنے کا نام نفاق ہے، اور جو ایسی حرکت کرتا ہے اسے منافق کہا جاتا ہے۔
نفاق کی قسمیں
نفاق کی دو قسمیں ہیں: اعتقادی اور عملی۔ اعتقادی نفاق جس میں سرے سے ایمان ہوتا ہی نہیں جس کی سزا یہ ہے کہ ایسا شخص ہمیشہ کے لیے جہنم رسید ہوگا۔ اور عملی نفاق میں ایمان کا استحضار نہیں ہوتا اور آدمی گناہ پر بے دریغ اور جری ہو جاتا ہے۔
مکی دور میں یا تو مسلمان تھے یا کافر، یہ دو ہی قسم کے لوگ تھے۔ جب رسول رحمت ﷺ نے ہجرت فرمائی تو اس وقت مدینہ میں دو قبیلے مشہور تھے اوس اور خزرج؛ ان دونوں قبیلوں نے انصار بن کر حضور ﷺ کا ساتھ دیا؛ لیکن یہودی اب تک ایمان کی نعمت سے محروم تھے، ان میں سے حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے سچے دین کو قبول کیا۔
مدینہ میں یہودیوں کے تین قبیلے تھے؛ بنو قینقاع، بنونضیر، بنو قریظہ۔ قبیلہ خزرج کا ایک شخص عبد اللہ بن ابی تھا۔ اس کو مدینہ میں سرداری کا مقام حاصل تھا اور اس کو بادشاہ بنانے کا ارادہ ہو ہی رہا تھا کہ رسول رحمت ﷺ کا دین حق مدینہ میں پھیلنے لگا۔ ظاہر ہے کہ اسلام کے پھیلاؤ اور اس کی حقانیت کی وجہ سے سارے لوگوں کا رخ نبی رحمت ﷺ کی طرف ہو گیا اور عبداللہ بن ابی کو اپنی سرداری سے محرومی کا خوف ہو گیا۔ اس نے دل ہی دل میں اپنے کفر کو چھپایا اور بظاہر مسلمانی کا لبادہ اوڑھ لیا اور اپنے عقیدتمندوں کو بھی ایسی ہی چال چلنے کی ترغیب دی۔ اس طرح مدینہ منورہ میں ایک تیسری جماعت تیار ہوئی جو منافقین کی جماعت کہلائی۔ اسی گروہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ، سورۂ نساء، سورۂ منافقون، سورۂ حشر کے علاوہ سورۂ توبہ میں تفصیلات بیان کیں اور ان کی قلعی کھول دی اور ان کا انجام بد بتلایا۔
ان منافقین کی یہ چالبازی تھی کہ جب وہ مسلمانوں سے ملاقات کرتے تو کہتے کہ ہم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جب کافروں سے ملتے تو کہتے تھے کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی حقیقت کو واضح طور پر بتلا دیا کہ یہ مومن نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حقیقت میں یہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
ہمیں اپنے آپ کا بار بار محاسبہ کرتے رہنا چاہیے کہ کہیں یہ بیماری ہمارے دلوں میں تو نہیں ہے؟ یہ محاسبہ اور جائزہ ہمارے دلوں میں موجود ممکنہ نفاق کو ختم کر سکتا ہے اور ہمارے ایمان کی تجدید کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو نفاق جیسی بیماری سے محفوظ رکھے اور پختہ ایمان نصیب فرمائے۔ آمین (جاری)