پران نہیں؛ ایمان کی فکر کیجیے!
محمد نصر اللہ ندوی
استاد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
22 جنوری کی تاریخ کو آر ایس ایس اور بی جے پی نے فکری ارتداد کے جشن میں تبدیل کردیا ہے۔ اب تک جو ڈھکے چھپے منافق تھے، انہوں نے کھل کر رام بھکتی کا اعلان کرنا شروع کردیا ہے۔ رام کے تئیں اظہار عقیدت کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے ہیں؛ بلکہ ان کے درمیان عقیدت میں مقابلہ کا جذبہ پیدا ہوگیا ہے۔
اجودھیا کے باشندہ نور عالم نے اپنی وسیع وعریض اراضی پر 22 جنوری کو عظیم لنگر کا اہتمام کیا ہے؛ تا کہ اس عظیم الشان تاریخ کو کوئی رام بھکت بھوکا نہ رہے۔ مراد آباد کے شعیب صاحب پیتل کا کاروبار کرتے ہیں، آج کل پیتل سے بناہوا رام مندر کا ماڈل زور شور سے تیار کر رہے ہیں۔ اس میں مودی جی کی تصویر بھی جڑی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی اس ماڈل کی زبردست ڈیمانڈ ہے۔ ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ ہمیں سیوا کرنے کا موقع ملا ہے۔ کانپور کے رہنے والے فیاض راٹھور سکوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان دنوں وہ ایسے سکے تیار کر رہے ہیں، جن میں ایک طرف رام مندر کی تصویر ہے، تو دوسری طرف خود رام جی براجمان ہیں۔ مہاراشٹر سے فاطمہ شیخ پیدل رام کی عقیدت میں اجودھیا کے لیے نکل پڑی ہے۔ ملک کے مختلف حصوں سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ مسلمان 22 جنوری کو اپنی کالونیوں میں جشن اور چراغاں کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر چندہ دے رہے ہیں، اور اس دن کو ملک کے لیے یادگار قرار دے رہے ہیں۔ آگرہ میں بی جے پی اقلیتی مورچہ کے (مسلم) صدر نے برقع پوش خواتین کے درمیان موم بتی کے پیکٹ تقسیم کیے؛ تاکہ 22 جنوری کو چراغاں کیا جائے۔
یہ چند مثالیں ہیں جن سے حالات کے رخ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اب مسلمان کھلم کھلا ارتداد کا اعلان کر رہے ہیں۔ 22 جنوری سے پیدا شدہ صورتحال کو اس کے لیے وہ غنیمت سمجھ رہے ہیں۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کا یہی مقصد ہے۔ وہ دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اب ہندو راشٹر کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے والا ہے۔ 22 جنوری کو ہونے والا جشن آر ایس ایس کے وِژن کا نقطۂ آغاز ثابت ہوگا۔ آر ایس ایس کے اہم لیڈر اندریش کمار نے ایک اپیل جاری کی ہے کہ مذکورہ تاریخ کو تمام مساجد، مکاتب، مدارس اور دینی اداروں میں رام کے نغمے گائے جائیں۔ یہ اعلان اپنے آپ میں بہت کچھ بیاں کررہا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے جو بات اشاروں اور کنایوں میں کہی جارہی تھی، اب برملا اس کا اعلان ہورہا ہے اور مسلمانوں کو کھلے عام ارتداد کی دعوت دی جارہی ہے، اور ان سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے دین و ایمان کو خیرباد کہہ کر رام کے رنگ میں رنگ جائیں۔
مسلمانوں کی نئی نسل پہلے ہی فکری ارتداد کی راہ پر چل پڑی ہے، اب اس میں نئے خاندان اور گھرانے بھی شامل ہورہے ہیں۔ یہ لوگ دراصل عزت اور شہرت کے بھوکے ہیں۔ وہ اس کے لیے کسی حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ لوگ بہت ہی نادان اور احمق ہیں۔ ان کو معلوم نہیں کہ شرک کی پناہ میں کبھی بھی عزت حاصل نہیں ہو سکتی ہے۔ قرآن کریم میں الله نے اعلان کیا ہے کہ جو ایمان والوں کو چھوڑ کر عزت کی خاطر کافروں کو دوست بنا تے ہیں، ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ساری عزتیں الله ہی کے لیے ہیں۔ (سورہ نساء :139) تجربہ اور مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ چند دنوں تک ایسے لوگوں کی واہ واہی ہوتی ہے، پھر وہ نہ گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے۔ سینکڑوں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ عزت و ذلت الله کے ہاتھ میں ہے۔ اصل عزت الله کی بندگی اور اطاعت میں ہے۔ جو اس سے ہٹ کر عزت تلاش کرنے کی کوشش کرے گا، وہ دونوں جہان میں ذلیل و خوار ہوجائے گا۔
یہ دور آزمائشوں اور فتنوں کا ہے، معمولی مفاد کے لیے لوگ اپنے دین و ایمان کا سودا کر رہے ہیں، ایسے پرفتن دور میں علماء، ائمہ، قائدین اور باشعور حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے دین و ایمان کو بچانے کی فکر کریں۔ جمعہ کے بیانات میں کھل کر توحید کی اہمیت اور کفر کی شناعت پر گفتگو کی جائے۔ اس سلسلہ میں کسی مداہنت کی ضرورت نہیں ہے۔ وقت کے بوجہل اور بولہب کے سامنے بیباک انداز میں بغیر کسی لاگ لپیٹ کے حق کا اعلان کیا جائے۔ یہی وقت کا تقاضہ اور ایمان کا مطالبہ ہے۔ الله ہمیں توفیق دے۔ آمین
-
- اس طرح کے مزید مضامین شائع ہونے کی اطلاع پانے کے لیے ہمارے واٹساپ چینل کو فالو کریں! (کلک کریں)