درس قرآن نمبر (۱۹) سورۃ البقرۃ، آیت: ۱۷-۱۸

درس قرآن نمبر (۱۹) سورۃ البقرۃ، آیت: ۱۷-۱۸

منافقین اندھے، بہرے اور گونگے ہیں

أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ ـ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِيْ اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّآ أَضَاۤءَتْ مَا حَوْلَهٗ ذَهَبَ اللهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِيْ ظُلُمٰتٍ لَّايُبْصِرُوْنَ ۝۱۷ صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ ۝۱۸

لفظ بہ لفظ ترجمہ: مَثَلُهُمْ ان کی مثال كَمَثَلِ اس شخص کی سی ہے الَّذِيْ جس نے اسْتَوْقَدَ جلائی نَاراً آگ فَلَمَّآ پھر جب أَضَاۤءَتْ روشن کر دیا اس نے مَا حَوْلَهٗ جو اس کے ارد گرد ہے ذَهَبَ اللهُ تو اللہ لے گیا بِنُوْرِهِمْ ان کی روشنی وَ تَرَكَهُمْ اور ان کو چھوڑ دیا فِيْ ظُلُمٰتٍ اندھیروں میں لَّايُبْصِرُوْنَ وہ نہیں دیکھتے صُمٌّۢ وہ بہرے ہیں بُكْمٌ گونگے ہیں عُمْيٌ اندھے ہیں فَهُمْ لہٰذا وه لَا يَرْجِعُوْنَ نہیں لوٹتے۔

ترجمہ: ان منافقین کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ جلائی پھر جب اس آگ نے اس شخص کے آس پاس کو روشن کردیا تو اللہ تعالی نے ان کی روشنی کو ختم کردیا اور ان کو اندھیروں میں چھوڑدیا کہ وہ دیکھ نہیں رہے ہیں۔(۱۷) یہ لوگ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں۔ پس یہ لوگ رجوع نہ ہوں گے۔(۱۸)

تشریح: ان دو آیتوں میں دو باتیں بتلائی گئی ہیں:
ا۔ ان منافقوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک آگ روشن کی پھر جب اس آگ نے اس کے ماحول کو روشن کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کا نور سلب کرلیا اور انہیں اندھیریوں میں چھوڑدیا کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

۲۔ وہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، چنانچہ اب وہ واپس نہیں آئیں گے۔

اللہ تعالیٰ نے ان بدبخت و بدنصیب منافقوں کی بہترین مثال دی ہے جنہوں نے ہدایت کو چھوڑ کر ضلالت کو اختیار کیا۔ ایمان و اسلام کو پس پشت ڈال کر کفر و شرک کو پسند کیا کہ ان کی مثال اس شخص کے جیسی ہے جس نے اندھیرے میں آگ جلائی، اس آگ سے سارا ماحول روشن ہو گیا، دائیں بائیں آگے پیچھے ساری چیزیں نظر آنے لگیں، ساری چیزوں کی حقیقتیں کھل کر سامنے آگئیں۔ اس آگ کی روشنی کی وجہ سے ساری پریشانیاں دور ہو گئیں۔ اتنے میں اچانک آگ بجھ گئی اور روشنی کی جگہ اندھیرا چھا گیا۔ ایسا گھٹاٹوپ اندھیرا کہ نہ نگاہ کام کر رہی ہے اور نہ کسی کی بات سنائی دے رہی ہے اور نہ کسی سے دریافت کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ ایسی صورت میں بھلا اس شخص کو کیسے راستہ مل سکتا ہے؟َ وہ کیسے اپنی منزل پا سکتا ہے؟

بالکل یہی مثال مدینہ کے ان منافقین کی دی گئی ہے جنہوں نے ظاہری طور پر اسلام قبول کر لیا اور دل میں ان کے ایمان نہ تھا۔ ظاہری اسلام کی وجہ سے بظاہر لوگوں میں تو مسلمان مشہور ہو گئے جس کا دنیوی فائدہ یہ ملا کہ ان کی جان اور ان کا مال محفوظ ہو گیا؛ لیکن دل کی دنیا میں ایمان نہ ہونے کی وجہ سے ایسا اندھیرا چھا گیا کہ آخرت تباہ ہو گئی۔ ساری روشنی ختم ہوگئی، آنکھ رکھ کر بھی اندھے، کان رکھ کر بھی بہرے اور زبان رکھ کر بھی گونگے ہو گئے۔ اب ان منافقین کے راہ پانے کی کوئی صورت باقی نہ رہی۔

ایمان ایک روشنی ہے اور کفر و نفاق اندھیرا ہے۔ کامیاب ہے وہ جس کو ایمان و اسلام کی روشنی مل گئی وہ اس روشنی کو محفوظ رکھنے کی فکر کرے اور نا کام ہے وہ جو ایمان کی روشنی سے محروم ہو گیا اور کفر کی تاریکی میں پڑ گیا اور اللہ کی نگاہ میں اندھا، بہرا اور گونگا بن گیا۔

سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۱۷۱ میں کافروں کے لیے بھی صُمٌّۢ، بُكْمٌ اور عُمْيٌ کا خطاب دیا گیا ہے، صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ یہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں یہ سمجھ نہیں سکتے۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو کفر و نفاق اور شرک و ضلالت سے پاک و صاف رکھے۔ آمین

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے