دار العلوم دیوبند کا پہلا کارخانہ تجارت، اس کے افراد اور برکات

دار العلوم دیوبند کا پہلا کارخانہ تجارت، اس کے افراد اور برکات

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ دار العلوم دیوبند سے 1882ء، یا1883ء میں فارغ ہوگیے، فراغت کے دوسرے سال 1884ء میں حضرت حج پرتشریف لے گئے؛ کیوں کہ آپ پر حج فرض ہوگیاتھا۔۔۔ اِس بات کا ذکر کرتے ہوے عصر حاضر کے عظیم محقق، اکابر و اہلِ علم کی امانتوں کے لاثانی امین، حضرت مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی زیدمجدہ رقم فرماتے ہیں:

اُس وقت حضرت مولانا نے مدرسہ دیوبند (دارالعلوم) کے سلسلۂ کاروبار و تجارت (Private Limited Company) میں جو حصہ (Share) لے رکھے تھے، اس کی رقم منافع کے ساتھ واپس ملی تھی، جس کی وجہ سے حضرت مولانا پر حج فرض ہوگیا تھا، اور مولانا اپنے والد کے مشورے سے شوال 1301ھ (جولائی 1884ء) میں سفر حج کے لیے حاضر ہوئے۔۔۔۔۔

(حاشیہ) میں لکھتے ہیں:
کیسی حسرت وافسوس کی بات ہے کہ ہم اپنی دینی، علمی، ملی، تاریخی ضروری حصوں سے بھی تقریباً بے خبر ہیں۔ مدرسہ دیوبند (دارالعلوم) کا ’’کارخانۂ تجارت‘‘ بھی ان ہی افسوس ناک اوراق میں سے ایک ہے، جو نذرِ خزاں ہوکر کالعدم ہوگیا۔۔۔۔۔ جب مدرسہ دیوبند قائم ہوا، اس کے دو تین سال بعد اربابِ مدرسہ نے یہ خیال کیا کہ ہمارے ان مدرسوں سے جو طلباء فارغ ہوں گے، اور جو لوگ یہاں رہ کر خدمات انجام دیں گے، ان کے لیے اچھے معاشی وسائل اور بہتر زندگی گزارنے کے انتظامات ہونے چاہئیں۔۔۔۔ اس مقصد کے لیے دار العلوم کے اربابِ انتظام نے ایک بڑا سلسلۂ تجارت، یا پرائیوٹ لمٹیدکمپنی (Private Limited Company) قائم کی، جس کا ایک حصہ اس وقت سو (100) روپئے کاتھا۔۔۔

دارالعلوم و مظاہرالعلوم کے اکثر اساتذہ و علماء، مولانا مظہر نانوتوی، حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری، اور دیوبند کے اکثر اساتذہ غالباً مولانا محمد یعقوب نانوتوی اور مولانا سید احمد دہلوی بھی اِس کے حصہ دار (Shareholder) تھے۔۔۔ اس کمپنی، یا کارخانۂ تجارت کا سرمایہ بڑھتے بڑھتے پچاس ہزار روپئے تک پہنچ گیا تھا، مگر پھر اس کو دیوالیہ (Bankrupt) دِکھاکر اچانک ختم کردیا گیا۔۔۔۔ بہرحال یہ ایک قابلِ توجہ اور پرسوز تاریخ ہے، جس سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں کہ:

۱۔ ترکِ دنیا، ان مشائخ کا معمول نہیں تھا، وہ دنیا کے ضروری وسائل کی فراہمی میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

۲۔ دوسرے اگر یہ سلسلہ جاری رہتا، تو شاید دیوبند و سہارنپور کے اکثر وابستگان، خوش حال ہوتے۔۔ اور بعد کے علماء بھی اسی راستے پر چلتے، سفر کرتے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہوجاتے۔

۳۔ تیسری افسوس ناک بات یہ ہے کہ: آج تک کسی نے اس پر تفصیل سے نہیں لکھا، کہ ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں پہنچے؟

ضرورت ہے کہ کوئی نوجوان فاضل اس ’’کارخانۂ تجارت‘‘ پر توجہ کرے اور اس کے تمام پہلو سامنے لائیں۔ [ تعارف و تأثرات در بوادر النوادر، جدید مکمل :52/1 ]

نوٹ: یہ خاک سار عرض گزار ہے کہ: حضرت زید مجدہ کی اس تحریر سے کئی افادات صاف نظر آتے ہیں، مثلاً:

۱۔ قیام دارالعلوم کی اولیں خدمات، یا فرائض و واجبات میں صرف تعلیمی و تحقیقی، یا سیاسی و ملی امور ہی نہیں؛ معاشی و مالی امور بھی نہ صرف شامل تھے، بلکہ کافی اونچی سطح پر زیر عمل تھے۔۔ اور کیوں نہ ہو جبکہ مذکورہ امور کے لیے بھی یہ قیام، بقاء اور تحفظ کی بنیاد ہے۔

۲۔ طلبہ و مدرسین کی ضروریات و سہولیات کے لیے صرف اہلِ خیر سے تعاون (چندہ) کی شکل نہ تھی، بلکہ اپنی ضروریات از خود پوری کرنے کے لیے تجارت و کاروبار کا باقاعدہ ایک نظامِ کار تھا۔

۳۔ مضمون میں جن اکابر کا نام، بطور خاص لیا گیا ہے، وہ زاہدین، قناعت پسند اور تارکین دنیا سے مشہور تھے، مگر پھر بھی وہ مالی و معاشی ضرورت و اہمیت سے بے خبرنہ تھے، بلکہ ایک کمپنی کے حصہ دار یعنی (shareholders) تھے۔۔۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ اس کمپنی کے مؤید، یا منتظم، یا نگراں، یا معاون، یا عملاً داعی و محرک، یا کسی طور مفید و مستفید تھے۔۔۔۔ گویا یہ سلف صالحین و اہلِ دل تمام خیر الدارین جامع تھے۔

۴۔ اُس کارخانے کو دیوالیہ دِکھا کر بند کرنے کی وجہ، غالباً انگریزی حکومت اور سیاسی وجوہات رہی ہوں گی۔۔۔ ورنہ مقصدِ خیر کے لیے اہلِ دل و اہلِ علم اکابر کا جاری کردہ نظامِ خیر [افادیت کے با وصف] کیوں کر بند کر دیا جاتا۔

۵۔ آج سے ایک سو چالیس سال پہلے ایک حصہ [share] 100 روپئے کا تھا۔ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پوری کمپنی کی (Value) یعنی اہمیت کتنی بڑی رہی ہوگی۔۔۔ اس میں مظاہر العلوم اور دار العلوم کے اکثر اساتذہ حصے دار تھے، تو ہمارے اکابر مالی لحاظ سے بسا خوش حال ہونے کے ساتھ کس درجے بلند زاھد رہے ہوں گے! (مال کے بغیر، غربت کی حالت کا زہد بھی کامل زہد ہے۔۔۔۔ مگر مال و ودولت کے ساتھ اکمل زہد ہے۔)

۶۔ ایک حصہ ۱۰۰ کا اور نفع اتنا زیادہ۔ دوسرے حصے دار افراد کو بھی اتنا، یا اس سے زیادہ ، یا اس کے قریب، یا اچھا خاصا نفع حاصل ہوا ہوگا۔۔۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ: اس کمپنی کی افادیت کتنی عظیم رہی ہوگی؟!

نوٹ: یہاں ایک سوال و اشکال اٹھتا، بل کہ اٹھایا جاتا ہے کہ: جب ایسا ہے، تو پھر کیوں اُس کے بعد، اور آج اہل مدارس اور علماء اِس جانب توجہ نہیں کرتے؟…. اس کی بھی اپنی صحیح معقول وجوہات ہیں۔ جس پر آئندہ کبھی -ان شاء الله- کلام کیا جائے گا۔۔۔۔۔ سردست دعائیں کریں کہ اے خیر کے خالق و مالک، ہمارے رب کریم! ہم کو دارین کے خیر سے مالا مال کر دے۔ فقط

محمد یاسین خان، بنگلور
۱۹/۱۲/۱۴۴۵ھ = 2024/6/26ء


ہمارے واٹساپ چینل کو فالو کریں!

https://whatsapp.com/channel/0029VaKiFBWEawdubIxPza0l

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے