نغمۂ سرمد
از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری
24 ذی الحجہ 1445ھ یکم جولائی 2024ء
آج ایک نئی مسجد میں نماز ادا کی، نیت باندھنے کے بعد حسبِ معمول وساوس کے سامنے خود سپردگی کرنے ہی والا تھا، ابلیس بھی سرقۂ نماز سے اپنا حصہ لینے کے لیے حاضر تھا کہ تلاوت کی نغمگی نے منظر نامہ بدل دیا۔ امام صاحب نے ’’وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاؤدَ مِنَّا فَضْلًا‘‘ والا رکوع پڑھا اور کیا ہی خوب پڑھا! بالکل نو عمر خوش الحان نے سماں باندھ دیا، آواز میں ترنم کی رعنائی تھی تو انداز میں رنگینیٔ فغاں، ادا میں پختگی اور لہجے میں ثقاہت، اس صوتی جام نے سماعت کی راہ سے عجب شاد کام کیا، نشے کی ایک لہر اٹھی اور روئیں روئیں کو سرشار کر گئی۔
قرآن کے الفاظ معجزہ ہیں، ہمارا یمین و یسار عربی کتب سے تہہ بہ تہہ ہے؛ لیکن ان کی عبارتوں کی قراءت نہ سر پیدا کرتی ہے نہ ساز، قرآن وغیر قرآن کی لے یکساں ہو ممکن نہیں۔ ایک جگہ تال ٹوٹے گی اور دوسری جگہ بارش والی رم جھم رنگ جمائے گی، الفاظ کے اعجاز کا یہ پہلو بھی دل چسپ ہے کہ مطلب سمجھے بغیر بھی مزہ آتا ہے، چناں چہ مذکورہ تلاوت سے ناچیز بھی برابر لطف اندوز ہوا۔
قرآن وہ روحانی نغمہ ہے جسے سننے کے بعد کوئی زمزمہ اچھا نہیں لگتا، قرآن مہکتا گلاب ہے، چہکتا ترانہ ہے، بہتا آبشار ہے، چمکتا مہتاب ہے اور یہی نوائے سروش ہے۔
وہ مدرسے بہشت کی کیاریاں ہیں جو اس آہنگ کے ہیرے تراشنے میں مصروف ہیں، یہ خوش گلو قراء امت مسلمہ کا اثاثہ ہیں، مدارس نے ملت کی وفاؤں کا صلہ ان طیورِ خوش آہنگ کی صورت میں بہت خوب دیا ہے، یہ تلاوت رشکِ ملائک ہے، یہ مدرسے فخرِ افلاک ہیں، ملأ اعلی کے نزدیک کائنات کا رنگ انھیں کے وجود کا منت کش ہے اور انھیں کے ساز سے قائم ہے وہاں کا سوز دروں۔ (ختم شد)
ہمارے واٹساپ چینل کو فالو کریں!