معاشیات قسط: 13
از قلم: محمد اطہر
اس قسط میں آپ پڑھیں گے:
- اسلامی معاشی نظام کا اخلاقی پہلو
- سود کی خرابیاں
- تقسیم دولت پر سود کا اثر
اسلامی معاشی نظام کا اخلاقی پہلو
جیسا کہ پیچھے آپ نے مطالعہ کیا کہ اسلام کسی معاشی نظام کا نام نہیں بلکہ ایک دین کا نام ہے۔ اس دین کی تعلیمات اور احکام زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح معیشت سے متعلق بھی ہیں۔ لیکن اس دین کی تعلیمات میں یہ بات قدم قدم پہ واضح کی گئی ہے کہ معاشی سرگرمیاں اور ان سے حاصل ہونے والے مادی فوائد انسان کی زندگی کا منتہائے مقصود نہیں ہے۔ قرآن کریم کا تمام تر زور اس بات پر ہے کہ دنیاوی زندگی ایک محدود اور چند روزہ زندگی ہے۔ اور اس کے بعد ایک ایسی ابدی زندگی آنے والی ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ اور انسان کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اس دنیوی زندگی کو اخروی زندگی کے لئے زینہ بنائے، اور وہاں کی بہبود کی فکر کرے۔
لہٰذا انسان کی اصل کامیابی یہ نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں چار پیسہ زیادہ کمالے، بلکہ اس کی کامیابی یہ ہے کہ وہ آخرت کی ابدی زندگی میں زیادہ سے زیادہ عیش و آرام کا انتظام کرے۔ اس کا راستہ یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے ایسا کام کرے جو اس کے لئے زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب کا موجب ہو۔
جب یہ ذہنیت افراد میں پیدا ہوجاتی ہے تو ان کے معاشی فیصلوں پر اثر انداز ہونے والی چیز صرف یہ نہیں ہوتی کہ کونسی صورت میں ہماری تجوری زیادہ بھرے گی؟ بلکہ بسا اوقات ان کے معاشی فیصلے اس بنیاد پر بھی ہوتے ہیں کہ کونسے کام سے مجھے آخرت میں زیادہ فائدہ ہوگا؟ اس طرح بہت سے معاملات میں شریعت نے کوئی وجوبی حکم نہیں دیا، لیکن ان کے اخروی فضائل بیان فرمائے ہیں۔ جو ایک مومن کے لئے بہت بڑی کشش کا ذریعہ ہے۔
اس کی ایک سادہ سی مثال یہ ہے کہ اگر ایک شخص کے پاس سرمایہ کاری کے لئے دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنا سرمایہ کسی جائز تفریحی مگر تجارتی منصوبے میں لگائے، جس میں اسے زیادہ آمدنی کی توقع ہے۔ اور دوسرا یہ کہ وہ یہ سرمایہ بے گھر لوگوں کے لئے سستے مکان تعمیر کرکے فروخت کرنے پر صرف کرے، جس میں اسے نسبتاً کم منافع کی توقع ہے۔
تو ایک سیکولر ذہنیت کا حامل شخص یقیناً پہلے راستے کو اختیار کرے گا۔ کیونکہ اس میں منافع زیادہ ہے۔ لیکن جس شخص کے دل میں آخرت کی فکر بسی ہوئی ہو، وہ اس کے برعکس یہ سوچے گا کہ اگرچہ رہائشی منصوبہ میں مالی نفع نسبتاً کم ہے، لیکن میں غریب لوگوں کے لئے رہائشی مکان فراہم کرکے اپنے لئے آخرت میں اجر و ثواب زیادہ حاصل کرسکتا ہوں۔ اس لئے مجھے تفریحی منصوبے کے بجائے رہائشی منصوبے کو اختیار کرنا چاہیے۔
یہاں اگرچہ شرعی اعتبار سے دونوں راستے جائز تھے، اور ان میں سے کسی پر کوئی ریاستی پابندی بھی عائد نہیں تھی۔ لیکن عقیدۂ آخرت پر مبنی اخلاقی پہلو نے لوگوں کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس شخص کو ایسے عمل پر ابھارا جس میں اخروی نفع بھی ہو۔ اس کی وجہ سے ترجیحات کا بہترین تعین اور وسائل کی بہترین تخصیص عمل میں آئی۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ لیکن اگر واقعتاً اسلام کا عقیدۂ آخرت دل میں پوری طرح جاگزیں اور مستحضر ہو تو وہ معاشی فیصلوں کی بہتری میں زبردست کردار ادا کرتا ہے۔
اس سے انکار نہیں کہ غیر اسلامی معاشروں میں بھی اخلاق کا ایک مقام ہے۔ اور بعض مرتبہ اخلاقی نقطۂ نظر معاشی فیـصلوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ ان اخلاقی تصورات کی پشت پر آخرت کا مضبوط عقیدہ نہیں ہے؛ اس لئے وہ بحیثیت مجموعی معیشت پر بہت نمایاں اثرات نہیں چھوڑتا۔ اس کے برخلاف اگر اسلام اپنی تمام تعلیمات کے ساتھ بتمام و کمال نافذ العمل ہو تو اس کی اخلاقی تعلیمات کا اثر معیشت پر بہت نمایاں ہوگا۔ جیسا کہ ماضی میں اس کی بے شمار جیتی جاگتی مثالیں سامنے آچکی ہیں۔(۱)
سود کی خرابیاں
سود کی بہت ساری خرابیاں ہیں، یہاں آپ صرف یہ مطالعہ کریں گے کہ تقسیم دولت پر سود کا کیا اثر ہوتا ہے۔
تقسیم دولت پر سود کا اثر
جس طرح قمار اور سٹے کے ذریعے بہت سے افراد کا سرمایہ کھچ کھچ کر ایک شخص کے پاس پہنچ جاتا ہے، اسی طرح سود کے ذریعے بھی سرمایہ چند مخصوص افراد کے پاس پہنچ جاتا ہے، اور تقسیم دولت پر ناہمواری پیدا ہوتی ہے۔ لیکن اس کی طرف عام طور سے توجہ نہیں دی جاتی۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ سود بہر صورت تقسیم دولت کے توازن میں بگاڑ پیدا کرتا ہے۔
کیونکہ جو شخص کسی دوسرے سے قرض لے کر کاروبار کرتا ہے، اگر اسے کاروبار میں نقصان ہو تو قرض دینے والا بہر صورت اپنے سود کا مطالبہ جاری رکھتا ہے، بلکہ سود در سود ہوکر اس کی واجب الادا رقم کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح قرض لینے والا سراسر نقصان میں رہتا ہے، اور قرض دینے والا سراسر فائدے میں۔
دوسری طرف جو بڑے سرمایہ دار بنکوں سے بھاری رقمیں لے کر بڑے پیمانے کے کاروبار کرتے ہیں، ان کو اپنے اس کاروبار میں بھاری نفع ہوتا ہے، وہ اس کا بہت تھوڑا حصہ سود کی شکل میں بنک کو اور بنک کے واسطے سے امانت دار عوام کو منتقل کرتے ہیں۔ باقی سارا نفع خود رکھتے ہیں۔ اور اس طرح دونوں صورتوں میں تقسیم دولت غیر متوازن ہوتی ہے۔
اس کو ایک سادہ سی مثال سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں بکثرت ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص نے اپنی جیب سے صرف دس لاکھ روپے کسی کاروبار میں لگائے اور نوے لاکھ روپے بنک سے قرض لئے۔ اور اس طرح ایک کروڑ روپے سے تجارت کی۔ جب اتنی بھاری رقم سے تجارت کی جائے گی تو اس پر نفع کی شرح بھی بہت زیادہ ہوگی۔
فرض کیجئے کہ کاروبار میں پچاس فیصد نفع ہوا اور ایک کروڑ کے ڈیڑھ کروڑ بن گئے۔ تو سرمایہ دار پچاس لاکھ کے نفع سے صرف پندرہ لاکھ روپے سود کے طور پر بنک کو دے گا۔ جس میں سے بنک اپنا نفع رکھ کر بمشکل دس یا بارہ لاکھ روپے ان سینکڑوں عوام میں تقسیم کرے گا جن کی امانتیں اس کے پاس جمع ہیں۔ جس کا خالص نتیجہ یہ ہے کہ اس کاروبار میں جن سینکڑوں افراد نے نوے لاکھ روپے کا سرمایہ لگایا تھا اور انہی کے سرمایہ سے درحقیقت اتنے بھاری نفع کو ممکن بنایا، ان میں تو صرف دس بارہ لاکھ روپے تقسیم ہوئے اور جس سرمایہ دار نے صرف دس لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی تھی، اسے کاروبار کے نفع کی صورت میں ۳۵ لاکھ روپے ملے۔
پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پندرہ لاکھ روپے جو بنک کو دیئے گئے اور بنک کے واسطے سے عوام تک پہنچے، ان کو سرمایہ دار اپنی مصنوعات کی لاگت میں شامل کرتا ہے۔ جو بالآخر اس کی جیب پر نہیں پڑتے بلکہ عام صارفین کی جیب پر پڑتے ہیں۔ کیونکہ اس کاروبار میں اس نے جو مصنوعات تیار کیں ان کی قیمت مقرر کرتے وقت بنک کو دیئے ہوئے سود کی رقم بھی قیمت میں شامل کرتا ہے اور اس طرح درحقیقت اس کی اپنی جیب سے کچھ خرچ نہیں ہوا۔
اور اگر کاروبار میں کسی سماوی آفت یا کسی حادثے وغیرہ کی وجہ سے نقصان ہونے لگے تو اس نقصان کی تلافی انشورنس کمپنی کے ذریعے کرالی جاتی ہے۔ اور اس انشورنس کمپنی میں بھی ان ہزارہا افراد کا پیسہ جمع رہتا ہے جو ماہ بماہ یا سال بسال اپنی کمائی کا ایک حصہ یہاں جمع کراتے رہتے ہیں۔ لکین نہ ان کے کسی تجارتی مرکز کو آگ لگتی ہے اور نہ کوئی اور حادثہ پیش آتا ہے۔ اس لئے عموماً پیسے جمع ہی کراتے ہیں، نکلوانے کی نوبت کم آتی ہے۔
دوسری طرف اگر اس قسم کے بہت سے سرمایہ دار کسی بھاری نقصان کی وجہ سے بنک کو قرضے واپس نہ کرسکیں اور اس کے نتیجے میں بنک دیوالیہ ہوجائے تو اس صورت میں ان سرمایہ داروں کی تو بہت کم رقم گئی، نقصان سارا ان امانت داروں کا ہوا جن کے پیسے کے بل پر سرمایہ دار کاروبار کرتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ سود کے اس نظام کی وجہ سے پوری قوم کے سرمائے کو چند بڑے سرمایہ دار اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اور اس کے بدلے میں قوم کو بہت تھوڑا سا حصہ واپس کرتے ہیں۔ اور یہ تھوڑا حصہ بھی اشیاء کی لاگت میں شامل کرکے دوبارہ عام صارفین ہی سے وصول کرلیتے ہیں۔ اور اپنے نقصان کی تلافی بھی عوام کی بچتوں سے کرتے ہیں اور اس طرح سود کا مجموعی رخ اس طرف رہتا ہے کہ عوام کی بچتوں کا کاروباری فائدہ زیادہ تر بڑے سرمایہ داروں کو پہنچتا ہے اور عوام اس سے کم سے کم مستفید ہوتے ہیں۔ اس طرح دولت کے بہاؤ کا رخ ہمیشہ اوپر کی طرف رہتا ہے۔
افسوس یہ ہے کہ جب سے دنیا میں صنعتی انقلاب برپا ہوا اس وقت سے کوئی ملک ایسی مثال پیش نہیں کرسکا، جہاں صنعت اور تجارت کی ترقی کے ساتھ ساتھ اسلام کے معاشی احکام بھی پوری طرح نافذ ہوں۔ اس لئے کسی عملی نمونے کے حوالے سے یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے سے تقسیم دولت میں کس طرح توازن پیدا ہوتا ہے۔ لیکن خالص نظریاتی نقطۂ نظر سے غور کیا جائے تو اس نتیجے تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی کہ اسلامی تعلیات پر عمل کی صورت میں دولت کی تقسیم سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں زیادہ متوازن ہوگی۔
اگر ایک حرمت سود کے مسئلہ کو ہی لے لیا جائے تو اس سے بھی یہ بات واضح ہوسکتی ہے۔ کیونکہ سود کے ممنوع ہونے کے بعد کسی کاروبار کو سرمایہ کی فراہمی نفع نقصان میں شرکت کی بنیاد پر ہی ہوسکتی ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر روپیہ لینے والے کو نقصان ہوا ہے تو اس میں روپیہ دینے والا بھی شریک ہوگا۔ اور اگر نفع ہوا ہے تو روپیہ دینے والا اس نفع کے متعین فیصد حصے کا حقدار ہوگا۔
لہٰذا مذکورہ بالا مثال میں اگر سرمایہ دار نے بنک سے نوے لاکھ روپے لیتے وقت شرکت یا مضاربت کی بنیاد پر معاملہ کیا ہو اور اس کے اور بنک کے درمیان اگر ۶۰ فیصد اور ۴۰ فیصد کا تناسب بھی طے ہوا ہو تو ۵۰ لاکھ کے منافع میں سے کم از کم ۲۰ لاکھ رپے اسے بنک کو منتقل کرنے پڑیں گے اور بنک کو دیئے جانے والے نفع کا تعین چونکہ اشیاء کی فروختگی کے بعد ہوگا؛ اس لئے اس کو اشیاء کی لاگت میں شامل کرکے قیمت کے ذریعے عوام سے وصول نہیں کیا جا سکتا۔
پھر جو نفع سرمایہ دار کو حاصل ہوگا اس میں سے بھی زکوٰۃ اور صدقات وغیرہ کے ذریعے ایک بڑا حصہ وہ غریب عوام کی طرف منتقل کرنے کا پابند و ذمہ دار ہوگا۔ اس کا واضح نتیجہ یہ نکلے گا کہ دولت کے بہاؤ کا رخ چند سرمایہ داروں کے بجائے ملک کے عام باشندوں کی طرف ہوگا۔ اور جن عوام کی بچتوں سے ملک کی صنعت و تجارت فروغ پارہی ہے اس کے منافع میں وہ زیادہ بہتر شرح سے حصہ دار ہوں گے۔(۲) (قسط ۱۴ پڑھیں)