علم دین کی فضیلت و اہمیت ، ایمان افروز تقاریر، اردو تقریر

علم دین کی فضیلت و اہمیت

الحمد للہ و کفیٰ و الصلاۃ و السلام علیٰ سید الرسل و خاتم الأنبیاء، و علیٰ اٰلہ و أصحابہ الأصفیاء و الأتقیاء و أزواجہ و أتباعہ و سلم تسلیماً کثیراً کثیراً۔ أما بعد! قال تبارک و تعالیٰ في کتابہ المبین فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ قل ھل یستوي الّذین یعلمون و الذین لا یعلمون۔ (پارہ ۲۳ رکوع ۱۵)

و قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فضل العالم علی العابد کفضل القمر لیلۃ البدر علیٰ سائر الکواکب۔ (ترمذي ص ۹۳، جلد ۲)

علم ایک ایسی دولت ہے جو لٹتی نہیں

خرچ کرنے سے کبھی گھٹتی نہیں

پھر نہ تم کرنا کبھی تشنہ لبی کے شکوے

آج میخانے کا میخانہ اٹھا لاؤں گا

شیدائیان اسلام!

میں آپ حضرات کے سامنے نہ کوئی لمبی چوڑی تقریر اور نہ وسیع و عریض وعظ کرنے آیا ہوں۔ اس لیے کہ میں کوئی خطیب نہیں کہ آپ حضرات کے سامنے لمبا چوڑا خطاب کروں، اور نہ میں کوئی واعظ ہوں، اور نہ مفکر، نہ کوئی ادیب۔ صرف میں آپ حضرات کے سامنے علم دین کے موضوع پر گفتگو کرنے جارہا ہوں۔ میں پوری کوشش کروں گا کہ کوئی گوشہ باقی نہ رہے۔ امید ہے کہ آپ سنجیدگی و متانت کے ساتھ سماعت فرمائیں گے۔

آپ حضرات نے علم دین کی فضیلت و اہمیت کو بہت ساری کتابوں میں پڑھا ہوگا۔ بہت سارے مفکروں سے سناہوگا۔ بہت سارے دانشوروں سے سناہوگا۔ بہت سارے آدمیوں سے سناہوگا۔ بہت سارے مقرروں و خطیبوں سے سنا ہوگا۔ میں بھی آپ حضرات کے روبرو اسی عنوان پر گفتگو کرنے کے ارادہ سے آیا ہوں۔

برادران ملت!

علم دو طرح کا ہے۔ ایک دنیوی علم۔۔۔۔۔۔ ایک اخروی علم۔۔۔۔ علم چاہے دنیوی ہو یا اخروی ، انسان کو عزت و فضیلت عطا کرتا ہے۔ لیکن دنیوی علم صرف دنیا تک ہی محدود رہتا ہے۔ اور اخروی علم انسان کو دنیا و آخرت دونوں جگہ رسوائی و ذلت سے نجات دلاتا ہے۔ اور عزت و شوکت عطا کرتا ہے۔

میں آپ سے سوال کرتا ہوں!

وہ کونسی شی تھی جس نے آدم کو ملائکہ سے افضل بنادیا؟

وہ کونسی شی تھی جس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنادیا؟

وہ کونسی شی تھی جس کی برکت کی وجہ سے اللہ نے انسان کو خلیفہ بنایا؟

وہ کونسی شی تھی جس کی فضیلت کی بناء پر رب کائنات نے انسان کو اپنا نائب بنایا؟

وہ علم کی دولت ہے!

جب رب کائنات نے قرآن کو نازل فرمایا، تو سب سے پہلے وہ آیت نازل فرمائی جس کا تعلق علم سے ہے۔ یعنی اقرأ باسم ربک الذي خلق الخ

اسلام کے پاسبانو!

اخروی علوم کی فضیلت و اہمیت آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ میں بکثرت وارد ہوئی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: قل ھل یستوي الذین یعلمون و الذین لا یعلمون۔ (پ ۲۳ ع ۱۵) ترجمہ: اے محمد! آپ کہہ دیجیے کہ اہل علم و اہل جہل یکساں نہیں ہوسکتے۔

جس طرح توحید و شرک یکساں نہیں ہوسکتے۔

جس طرح ہدایت اور ظلمت ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔

جس طرح رفاقت و عداوت برابر نہیں ہوسکتے۔

جس طرح حق و باط برابر نہیں ہوسکتے۔

اس لیے کہ:

توحید کی ضد شرک ہے۔

ہدایت کی ضد ظلمت ہے۔

رفاقت کی ضد عداوت ہے۔

حق کی ضد باطل ہے۔

اور ایک قاعدہ ہے کہ اجتماعِ ضدین محال ہے۔

اسی طرح اہل علم اہل جہل برابر نہیں ہوسکتے۔

ایک حدیث شریف میں محسن انساانیت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: فضل العالم علی العابد کفضلِ القمرِ لیلۃ البدر علیٰ سائر الکواکب۔ (ترمذي جلد ۲ ص ۹۳) عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے کہ چودہویں چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر۔

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ دوسرے مومنوں کے مقابلے میں اہلِ علم کے ساتھ سو درجات زیادہ ہوں گے۔ اور ہر درجوں کے درمیان مسافت پانچ سو برس کی مسافت کے برابر ہوگی۔

برادران اسلام!

لیکن آج کے دور کے مسلمان اپنے بچوں کو اسلامی تعلیمات سے دور رکھتے ہیں۔ اور کمسن بچوں کو افرنگی تعلیمات دیتے ہیں۔ یہ صرف شیطان کا فریب ہے۔ وہ شیطان مردود جس نے عہد کیا کہ بنی آدم کو جہنم میں پہنچائے گا۔ وہ شیطان جو ہمارے دین و اسلام کا دشمن ہے۔

وہ شیطان جو ہماری معاشرت کا دشمن ہے۔

وہ شیطان جو ہمارے کلچر کا دشمن ہے۔

جو ہمارے کردار کا دشمن ہے۔

جو ہمارے تہذیب و تمدن کا دشمن۔

جو ہمارے سوسائٹی کا دشمن۔

جو ہمارے ایمان و اخلاق کا دشمن۔

یہ شیطان ہمارا ازلی دشمن ہے۔

اپنے خوبصورت اور رنگین جال میں پھنساکر ہمیں تعلیمات اسلامیہ سے دور کرنا چاہتا ہے۔

یاد رکھیں! اگر ہم اپنے کمسن و معصوم بچوں کے خیرخواہ ہیں تو اسے عالم دین بنائیں؛ اس لیے کہ محسن کائنات ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ: یشتغفر للعالم ما في السماوات و الأرض۔ (ترمذي ص ۹۳ ج ۲) زمین و آسمان میں جتنی اشیاء ہیں وہ سب عالم کے لیے مغفرت کی دعا کرتی ہیں۔

عالم کے لیے ملائکہ مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔

عالم کے لیے جنات بھی دعا کرتے ہیں۔

عالم کے لیے کیڑے مکوڑے بھی دعا کرتے ہیں۔

عالم کے لیے سمندر کی مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں۔

عالم کے لیے زمین و آسمان بھی دعا کرتے ہیں۔

اس کے باوجود مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ انگریزوں کی چال میں پھنس کر ہم اپنے دین و معاشرت کو داغدار کر رہے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہمارا دین صحابہ کے دین کی مانند ہوتا۔

ہمارا معاشرہ صحابہ کے معاشرے کے موافق ہوتا۔

ہمارا کردار صحابہ کے کیرکٹر کی مانند ہوتا۔

ہماری تہذیب مسلمانوں کی تہذیب ہوتی۔

ہماری سوسائٹی اسلام کی سوسائٹی کی مانند ہوتی۔

لیکن سب کچھ اس کے برعکس نظر آتا ہے۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

سمجھ میں کچھ نہیں آتا دنیا کا حساب الٹا

نصیحت کیجیے جس کو ملتا ہے جواب الٹا

عزیزان گرامی!

ابو الاسودؒ فرماتے ہیں کہ علم سے زیادہ کوئی شی عزت والی نہیں۔ بادشاہ لوگوں پر حکومت کرتے ہیں اور علماء بادشاہوں پر حکومت کرتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رب کائنات نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو یہ اختیار دیا تھا کہ تین اشیاء میں سے جس کو چاہیں پسند فرمائیں۔ علم ، مال، سلطنت، حضرت سلیمانؑ نے علم کو پسند فرمایا۔ لیکن خدا تعالیٰ نے مال و سلطنت کو علم کے ساتھ عطا فرمایا۔

اگر آج ہم بچوں کو علم دین کی تعلیم دیں تو آخرت میں یہی بچے ہمارے شان و شوکت کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

واقعہ:

ایک شخص تھا اس کی خواہش و تمنا تھی کہ اس کی اولاد میں کوئی عالم دین ہو، لیکن اس کی کوئی اولاد ہی نہ تھی۔ جب بیوی حمل سے تھی تو اچانک بیمار ہوگیا اور اسی حالت میں دارِ فانی سے اس کی روح پرواز کرگئی۔ انتقال سے قبل اس شخص نے وصیت کی تھی کہ اگر اس سے لڑکا پیدا ہوا تو اس کو عالم دین بنانا۔ خدا کی قدرت سے لڑکا ہی پیدا ہوا۔ اس کے کئی دنوں کے بعد ایک دوسرے شخص نے اس مرنے والے کو خواب میں عیش و عشرت میں دیکھا۔ تو خواب دیکھنے والے نے سوال کیا کہ میں نے اس سے پہلے بھی تم کو دیکھا تھا جب تم عذاب میں مبتلا تھے۔ اور اب دیکھتا ہوں کہ شان و شوکت کے ساتھ تم اپنے لمحات گذار رہے ہو۔ تو اس مرنے والے شخص نے کہا کہ آج میری بیوی نے میرے اس بچے کو مدرسے میں داخل کرایا۔ اور اس بچہ نے آج ہی بسم اللہ پڑھی جس کی بناء پر میری مغفرت ہوگئی۔

ملت اسلامیہ کے نوجوانو!

اس واقعہ سے عبرت حاصل کریں اور اپنے بچوں کو دین کی تعلیم دیں۔ اس لیے کہ عالم کے قلم کی سیاہی شہیدوں کے خون سے بھی افضل ہے۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ اگر علماء کرام کے قلموں کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولا جائے تو سیاہی کا وزن زیادہ ہوجائے گا۔

کیوں نہ ہو!

علم کی طلب عبادت ہے۔

علمی گفتگو جہاد ہے۔

علم تنہائیوں کا ساتھی ہے۔

علم سفر کا رفیق ہے۔

علم دین کا رہنما ہے۔

علم تنگدستی اور خوشحالی میں چراغ راہ ہے۔

علم دل کی زندگی ہے۔

علم سے ہی خدا کی عبادت و اطاعت کا حق ادا ہوتا ہے۔

علم امام ہے عمل اس کے تابع۔

قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: یا أیھا الذین اٰمنوا أطیعوا اللہ و أطیعوا الرسول و أولي الأمر منکم (سورۂ نساء) ترجمہ: اے ایمان والو!اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، اور تمہارے میں جو اولو الامر ہوں۔

یہاں پر اولو الامر سے مراد علماء دین ہے۔ اس لیے کہ آپ کو حضرت جابر بن عبد اللہ کی تفسیر میں یہی ملے گا۔

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی تفسیر میں یہی ملے گا۔

حضرت مجاہد کی تفسیر میں یہی ملے گا۔

حضرت عطا ابن ابی رباح کی تفسیر میں یہی ملے گا۔

امام رازی و حسن بصری کی تفسیر میں یہی ملے گا۔

سب ہی حضرات فرماتے ہیں کہ اولو الامر سے مراد علماء و فقہاء ہے۔ تو پھر ہمیں عالم دین اور علم دین کو حاصل کرنے میں کیوں شرم محسوس ہوتی ہے؟ ہمیں علم دین حاصل کرنا کیوں مشکل محسوس ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ شیطان ہمارے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے یا ہمارے عزائم و ارادے کمزور پڑگئے ہیں۔ اس لیے کہ کسی شاعر نے کہا ہے:

جواں ہوں عزم تو تارے بھی ٹوٹ سکتے ہیں

کٹھن نہیں کوئی کام آدمی کے لیے!

اور

قدم چوم لیتی ہے خود بڑھ کر منزل

مسافر اگر ہمت نہ ہارے

برادران اسلام!

آج علم دین کی اہمیت و وقعت کوئی نہیں پہچانتا۔ حالانکہ علم دین اپنی ضیا پاش کرنوں سے تحریف و تلبیس کےطوفان کو مٹا دیتا ہے۔ علم دین ہی ایک ایسی ضیا ہے جس سے رضاء الٰہی کی منزل چمکتی دکھائی دیتی ہے۔آج تک جو ہوگیا سو ہوگیا۔ اس لیے کہ

مصیبت کا بھی ایک مقصد ہے دنیا کے حوادث میں

کہ اک ٹھوکر لگے اور آدمی ہوشیار ہوجائے

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ علم دین کی سمجھ اور اس کی اہمیت ہمارے قلوب میں بٹھادیں۔ آمین

و ما علینا إلا البلاغ

(ایمان افروز تقاریر اور مزید تقریر کی کتابیں PDF میں ڈاؤنلوڈ کریں)

ٹیلیگرام چینل سے کتاب ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے کلک کریں!

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے